تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ہاشمی و علوی ایسے تھے کہ باپ ایک طرف مصروف جنگ ہے تو بیٹا دوسری طرف سے لڑ رہا ہے۔ غالباً بنو امیہ کے قتل اور ان کی بربادی کے نظارے دیکھ کر بہت سے علوی سہم گئے تھے۔ جیسا کہ علی بن حسین (زین العابدین) کربلا کا نظارہ دیکھ کر اس قدر متاثر تھے کہ کبھی بنو امیہ کے خلاف کوئی کام نہیں کیا اور بنو امیہ کی اہمیت و موافقت ہی کا اظہار فرماتے رہے۔ اسی طرح علویوں کے اکثر با اثر افراد بنو عباس کی مخالفت کو موجب تباہی جاننے لگے تھے۔ محمد مہدی کی شکست و ناکامی محض اس وجہ سے ہوئی کہ خود اس کے خاندان والوں والوں نے اس کا ساتھ نہیں دیا‘ اہل خاندان کے ساتھ نہ دینے کا یہ اثر ہوا کہ اور بھی بہت سے لوگ اس سے الگ رہے۔ چنانچہ محمد مہدی نے جس وقت مدینہ میں لوگوں سے بیعت لی اور رباح بن عثمان کو قید کر کے اپنی خلافت کا اعلان کیا تو اسماعیل بن عبداللہ بن جعفر کو بھی جو معتبر آدمی تھے‘ بیعت کے لیے بلوایا۔ انہوں نے جواب میں کہلوا بھیجوایا کہ ’’بھتیجے! تم مارے جائو گے‘ میں تمہاری بیعت کیسے کروں۔‘‘ اسماعیل بن عبداللہ کے اس جواب کو سن کر بعض اشخاص جو بیعت کر چکے تھے‘ پھر گئے اور حمادہ بنت معاویہ نے اسماعیل بن عبداللہ کے پاس آ کر کہا کہ آپ کے اس کلام سے بہت سے آدمی محمد مہدی سے جدا ہو گئے ہیں مگر میرے بھائی ابھی تک ان کے ساتھ ہیں۔ مجھ کو ڈر ہے کہ کہیں وہ بھی نہ مارے جائیں۔ غرض رشتہ داروں اور خاندان والوں کی علیحدگی نے محمد مہدی کو زیادہ طاقتور نہ ہونے دیا اور نہ بہت زیادہ ممکن تھا کہ خلافت پھر حسن رضی اللہ عنہ کی اولاد میں آ جاتی۔ اگر محمد مہدی اس وقت طرح دے جاتا اور مدینہ سے بچ کر نکل جاتا یا ابھی خروج میں جلدی نہ کرتا اور اپنے بھائی ابراہیم کے خروج کا انتظار کر دونوں بھائی ایک ہی وقت میں نکلتے تو بھی کامیابی یقینی تھی مگر منصور اور خاندان عباسیہ کی خوش قسمتی تھی کہ عباسی لشکر کو محمد اور ابراہیم دونوں کا مقابلہ یکے بعد دیگرے کرنا پڑا اور ان کی طاقت تقسیم ہونے سے بچ گئی۔ ابراہیم بن عبداللہ کا خروج منصور جس زمانہ میں بغداد کی تعمیر کے معائنہ کو آیا تھا‘ اس زمانہ میں ابراہیم بن عبداللہ برادر محمد مہدی پوشیدہ طور پر اس کے ساتھ تھا۔ وہاں سے وہ صاف بچ کر کوفہ چلا آیا اور منصور نے اس کی گرفتاری کے لیے بڑی کثرت سے ہر شہر میں جاسوس پھیلا دیے۔ منصورکو جب یہ معلوم ہوا کہ ابراہیم بصرہ میں ہے‘ تو اس نے بصرہ کے ہر ایک مکان پر ایک ایک جاسوس مقرر کرایا حالانکہ ابراہیم بن عبداللہ کوفہ میں سفیان بن حبان قمی کے مکان پر مقیم تھا۔ یہ بات بھی مشہور تھی کہ سفیان‘ ابراہیم کا بہت گہرا دوست ہے۔ جاسوسوں کی کثرت دیکھ کر سفیان گھبرایا اور اس نے ابراہیم کو صاف نکال دینے کی یہ ترکیب سوچی کہ منصور کے پاس پہنچا اور کہا کہ آپ میرے اور میرے غلاموں کے لیے پروانہ راہداری لکھ دیں اور ایک دستہ فوج میرے ہمراہ کر دیں۔ میں ابراہیم کو جہاں وہ ہو گا‘ گرفتار کر کے لے آئوں گا۔ منصور نے فوراً پروانہ راہداری لکھ کر دے دیا اور ایک چھوٹی سی فوج بھی اس کے ساتھ کر دی۔ سفیان اپنے گھر میں آیا اور گھر کے اندر جا کر ابراہیم کو اپنے غلاموں کا لباس پہنا کر اور غلاموں کے ساتھ ہمراہ لے کر مع فوج کوفہ سے چل دیا۔ بصرہ میں آ کر ہر ایک مکان پر دو دو چار چار لشکری مقرر کرتا گیا۔ اس طرح تمام لشکر کے آدمی جب تقسیم ہو گئے اور آخر میں صرف سفیان