تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
جاتی ہے حالانکہ اس مجوسی النسل خاندان نے دین اسلام اور ملت اسلامیہ کی کوئی غیر معمولی اور اہم خدمت انجام نہیں دی۔ ان کے قتل و بربادی کے اسباب بالکل عیاں اور روشن ہیں جس میں کسی شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اپنی سلطنت کے بچانے اور محفوظ رکھنے کے لیے ہارون الرشید نے برمکیوں کو تباہ کر دیا۔ جس طرح ہر ایک بادشاہ اپنی بادشاہت کے بچانے کے لیے دشمنوں کو برباد کر دیا کرتا ہے۔ اس نے جہاں برامکہ کو قید کیا‘ اپنے دادا کو بھی قید کر دیا‘ کیونکہ اس کا جرم بھی اسی قسم کا تھا۔ ایسی صاف بات میں دور از کار اور بے سروپا باتوں کو شامل کرنے کی مطلق ضرورت نہیں۔ عہد ہارون کے بقیہ حالات عہد ہارون الرشید کے حالات اور قابل تذکرہ واقعات بیان کرتے ہوئے ہم ۱۸۷ھ تک پہنچ گئے ہیں۔ واقعہ برامکہ کے بعد ۱۸۷ھ میں خلیفہ ہارون الرشید نے اپنے بیٹے موتمن کو صوبہ عوام کی طرف روانہ کیا۔ موتمن نے بلاد روم پر فوج کشی شروع کی اور عباس بن جعفر بن اشعث کو قلعہ سنان کے محاصرہ کے لیے روانہ کیا۔ رومی تاب مقاومت نہ لا سکے اور تین سو بیس مسلمان قیدیوں کو واپس دے کر مسلمانوں سے صلح کر لی۔ انھیں ایام میں یہ واقعہ پیش آیا کہ رومیوں نے ملکہ ایرینی اپنی قیصرہ کو معزول کر کے اس کی جگہ نیسی فورس یا نقفور نامی ایک سردار کو اپنا قیصر بنا لیا۔ پہلے ذکر ہو چکا ہے کہ رومیوں نے شارلمین بادشاہ فرانس کی فتوحات اطالیہ سے متاثر ہو کر ہارون الرشید سے دب کر صلح کر لی تھی اب نقفور نے تخت نشین ہو کر سب سے پہلا کام یہ کیا کہ شارلمین سے صلح کی اور اس طرف سے اپنے حدود سلطنت متعین کرا کر اور مطمئن ہو کر ہارون الرشید کو ایک خط لکھا کہ:۔ ’’ملکہ نے اپنی فطری کمزوری کے سبب دب کر تم سے صلح کر لی تھی اور تم کو خراج بھی دیتی رہی‘ لیکن یہ اس کی نادانی تھی‘ اب تم کو چاہیئے کہ جس قدر خراج تم ہماری سلطنت سے وصول کر چکے ہو وہ سب واپس کرو اور جرمانہ میں ہم کو خراج دینا منظور کرو‘ ورنہ پھر تلوار کے ذریعہ تم کو سزا دی جائے گی۔‘‘ یہ خط جب ہارون الرشید کے پاس پہنچا تو اس کے چہرے سے اس قدر طیش و غضب کے آثار نمایاں ہوئے کہ امراء و وزراء اس کے سامنے دربار میں بیٹھنے کی تاب نہ لا سکے اور خاموشی و آہستگی کے ساتھ دربار سے کھسک آئے۔ ہارون نے اسی وقت قلم و دوات لے کر اس خط کی پشت پر لکھا کہ:۔ ’’بسم اللہ الرحمن الرحیم از جانب امیرالمومنین ہارون الرشید بنام سگ روم۔ او کافر کے بچے‘ میں نے تیرا خط پڑھا۔ اس کا جواب تو آنکھوں سے دیکھے گا سننے کی ضرورت نہیں فقط۔‘‘ یہ جواب لکھ کر خط واپس بھیج دیا اور اسی روز لشکر لے کر بغداد سے بلاد روم کی طرف روانہ ہو گیا اور جاتے ہی رومیوں کے دارالسلطنت ہرقلہ کا محاصرہ کر لیا۔ نقفور حیران و پریشان ہو گیا اور تاب مقاومت نہ لا کر ہارون الرشید کی خدمت میں عفو تقصیرات کا خواہاں ہوا اور جزیہ دینے کا اقرار کیا۔ ہارون تقفور کو مغلوب و ذلیل کر کے پہلے سے زیادہ جزیہ ادا کرنے کا اقرار لے کر واپس ہوا۔ ابھی شہر رقہ تک ہی واپس آیا تھا کہ نقفور نے نقض عہد کیا اور پھر بغاوت پر آمادہ ہو گیا۔ اس کو یقین تھا کہ موسم سرما کی شدت کے سبب مسلمانوں کی فوجیں فوراً حملہ آور نہیں ہو سکتیں۔ مگر ہارون