تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
لشکر فتح مند ہو کر مکہ میں داخل ہوا۔ محمد بن جعفر نے امان طلب کی‘ ان کو امان دی گئی‘ محمد بن جعفر مکہ سے جحفہ اور جحفہ سے بلاد جہنیہ کی طرف چلے گئے‘ وہاں انھوں نے لشکر جمع کرنا شروع کیا۔ جب ایک بڑا لشکر جمع ہو گیا تو مدینہ منورہ پر حملہ کیا۔ مدینہ کے عامل ہارون بن مسیب نے مقابلہ کیا۔ متعدد لڑائیاں ہوئیں‘ آخر دیباچہ عالم محمد بن جعفر صادق نے شکست فاش کھائی۔ اور بلاد جہنیہ کی طرف واپس آئے۔ اسی لڑائی میں ایک آنکھ بھی جاتی رہی اور ہمراہی ان کے بہت زیادہ مارے گئے۔ اگلے سال موسم حج میں رجا بن جمیل اور جلودی سے جو ابھی تک مکہ کی حکومت پر مامور تھے امان حاصل کر کے مکہ میں آئے اور لوگوں کو جمع کر کے خطبہ دیا کہ میں جانتا تھا کہ مامون الرشید فوت ہو چکا ہے۔ اسی لیے میں نے لوگوں سے بیعت لی تھی۔ اب صحیح خبر پہنچ گئی ہے کہ مامون زندہ ہے۔ لہٰذا میں تم لوگوں کو اپنی بیعت سے سبکدوش کرتا ہوں۔ حج ادا کرنے کے بعد ۲۰۱ھ میں حسن بن سہل کے پاس بغداد چلے گئے۔ اس نے مامون کے پاس بھیج دیا۔ مامون نے ان کو عزت سے رکھا۔ جب مرو سے عراق کی جانب روانہ ہوئے تو راستے میں بمقام جرجان فوت ہوئے۔ ہرثمہ بن اعین کا قتل ! فضل بن سہل نے ہارون الرشید کی وفات کے بعد مامون کی خوب ہمت بندھائی تھی اور اسی نے امین کے مقابلے کے لیے سازو سامان کئے تھے۔ مامون نے اس کو وزیر اعظم اور صاحب السیف والقلم بنا دیا تھا‘ ایرانی مامون کی طرف اس لیے مائل تھے کہ اس کی ماں ایرانی تھی اور اس نے جعفر سے تربیت پائی تھی۔ اور اس نے ایرانیوں کو چوتھائی خراج معاف بھی کر دیا تھا۔ لہٰذا فضل کو اپنی وزارت اور خلیفہ پر قابو حاصل کرنے کے لیے ہر قسم کی سہولت حاصل تھی۔ اس نے مامون کو اس بات پر آمادہ کر لیا تھا کہ وہ مرو ہی کو دارالخلافہ رکھے جو خراسان کا دارالصدر تھا۔ یہاں اہل عرب کو کوئی زور و قوت حاصل نہیں ہو سکتی تھی۔ اگر مامون الرشید بغداد چلا جاتا تو فضل بن سہل کا یہ زور قائم نہیں رہ سکتا تھا۔ اور یہاں اہل عرب خلیفہ کو اس طرح فضل کے ہاتھ میں کٹھ پتلی کی طرح نہیں چھوڑ سکتے تھے۔ فضل بن سہل نے اپنے بھائی محسن بن سہل کو عراق و حجاز وغیرہ ممالک کا حاکم و وائسرائے بنا کر اہل عرب کے زور کو کم کرنے کا سامان کر دیا تھا۔ ہرثمہ اور طاہر دو زبردست سپہ سالار تھے جنہوں نے مامون کی خلافت قائم کرنے کے لیے بڑے بڑے جنگی کارنامے دکھائے تھے۔ طاہر کی شہرت اگرچہ ہرثمہ سے بڑھ گئی تھی۔ مگر ہرثمہ کی قدامت نے اس کمی کو پورا کر دیا تھا اور دونوں کو دربار خلافت سے برابر کے داعیے تھے۔ طاہر کو یہ محسوس ہو چکا تھا کہ امین کے قتل کرنے میں اس نے مامون کی اس فطری محبت کو جو بھائی کو بھائی کے ساتھ ہوتی ہے‘ صدمہ پہنچایا ہے‘ اسی لیے اس کو اس کے مفتوحہ علاقہ کی حکومت نہ ملی۔ بلکہ اس کی جگہ حسن بن سہل کو فضل بن سہل بآسانی مامون کے حسب منشاء ممالک مغربیہ کا وائسرائے مقرر کر سکا۔ پس طاہر تو اہل عجم کا زور توڑنے اور مامون کو مرو سے بغداد کی طرف لانے کے لیے کوئی کوشش و حرکت نہیں کر سکتا تھا۔ صرف ہرثمہ بن اعین ہی یہ جرأت کر سکتا تھا کہ وہ خلیفہ کو اہل عرب کے حسب منشاء توجہ دلائے۔ ہرثمہ کو یہ بات بھی معلوم ہو چکی تھی کہ مامون الرشید کے پاس کوئی خط‘ کوئی درخواست کوئی عرض داشت براہ راست بلا