تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
عنہ کو خطوط بھیج کر بلایا اور پھر ان کے قتل میں شریک ہوئے‘ اپنی اس حرکت سے ان کے دلوں میں پشیمانی پیدا ہوئی‘ ادھر ابن زیاد کو بھی کوئی انعام وصلہ نہ ملا‘ بلکہ خراسان کا علاقہ اس کی ماتحتی سے جدا کر دیا گیا‘ لہٰذا وہ بھی قتل حسین رضی اللہ عنہ سے پشیمان ہوا اور اہل کوفہ کو اظہار پشیمانی سے نہ روکا‘ کوفہ کے ان لوگوں نے جو شیعان حسین رضی اللہ عنہ کہلائے جاتے تھے‘ سلیمان بن صرد خزاعی کے مکان میں جمع ہو کرایک خفیہ جلسہ کیا اور اپنی خطائوں کا اقرار کرنے کے بعد ان کی تلافی کے لیے اس تجویز پر اتفاق کیا‘ کہ اب ہم کو خون حسین رضی اللہ عنہ کا معاوضہ ضرور لینا چاہیئے‘ چنانچہ سب نے سلیمان بن صرد کے ہاتھ پر بیعت کی‘ سلیمان نے لوگوں کو سمجھایا کہ تم اپنے اس اقرار اور ارادے پر قائم رہو‘ لیکن اس کے اظہار سے ابھی پرہیز کرو اور لوگوں کو رفتہ رفتہ اپنا ہم خیال بناتے رہو‘ جب موقع آئے گا تو ہم خروج کریں گے اور خون حسین رضی اللہ عنہ کا قصاص لے کو چھوڑیں گے۔ جب عبیداللہ بن زیاد نے اہل کوفہ کو اپنی بیعت کی طرف متوجہ کرنا چاہا‘ تو لوگوں نے اسی لیے انکار کیا‘ کہ وہ سلیمان بن صرد کی ہدایت و تجویز کے ماتحت ابن زیاد سے انتقام کی تیاریاں کر رہے تھے وہ بھلا اس کے ہاتھ پر بیعت کیوں کرنے لگے تھے؟ یزید کی وفات کا حال سن کر شیعان علی رضی اللہ عنہ نے سلیمان بن صرد سے کہا کہ اب مناسب موقع ہے‘ آپ خروج کیجئے۔ لیکن سلیمان نے ان کو اس ارادے سے باز رکھا اور کہا کہ اہل کوفہ کی ایک بڑی تعداد ایسی باقی ہے جو ہماری ہم خیال اور شریک کار نہیں ہے‘ مناسب یہ ہے کہ ابھی چند روز تک اور اندر اندر اپنی کوششوں کو جاری رکھو اور اپنی جمعیت اور طاقت بڑھائو۔ ابن زیاد کو صاف جواب دینے کے بعد اہل کوفہ نے عمرو بن حرث کو جو ابن زیاد کی طرف سے کوفہ کا حاکم تھا نکال دیا اور عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنھما کی خلافت کو تسلیم کر لیا‘ عبداللہ بن زبیر کی طرف سے عبداللہ بن یزید انصاری کوفہ کے گورنر اورابراہیم بن محمد بن طلحہ محصل خراج مقرر ہو کر آگئے۔ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنھما کے گورنر کی آمد سے ایک ہفتہ پیشتر مختار بن ابو عبید بھی جو محمد بن الحنفیہ کے پاس گیا ہوا تھا‘ واپس کوفہ میں آیا‘ یہ رمضان ۶۴ھ کا واقعہ ہے۔ بصرہ والوں نے بھی ابن زیاد کے چلے جانے پر عبداللہ بن حرث کو اپنا سردار بنا لیا اور پھر اہل کوفہ کی تقلید میں اپنا ایک وفد بھیج کر سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنھما کی خلافت کو تسلیم کر لیا‘ اس طرح تمام ملک عراق پر بھی سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنھما کی حکومت مسلم اور قائم ہو گئی۔ مصر میں ابن زبیر کی خلافت مصر کا حاکم عبدالرحمن بن خجدم تھا‘ اس نے جب معاویہ بن یزید کے انتقال کی خبر سنی تو فوراً بذریعہ وفد عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنھما کی بیعت کی۔ حمص کے گورنر نعمان بن بشیر اور قنسرین کے حاکم ظفر بن حارث تھے‘ ان دونوں نے بھی معاویہ بن یزید کی وفات کا حال سن کر عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنھما ہی کی خلافت کو تسلیم کرنا مناسب سمجھا۔ معاویہ بن یزید کی وفات کے بعد چوں کہ جلد خلیفہ کا انتخاب نہیں ہو سکا تھا‘ لہٰذا اہل دمشق نے ضحاک بن قیس کے ہاتھ پر اس اقرار کے ساتھ بیعت کی تھی کہ جب تک