تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
نے اسی وقت حکم دیا کہ کوتوال اور پولیس کو بلا کر حکم دو کہ لوگوں سے میرے حکم کے موافق بیعت لیں اور جو شخص انکار کرے‘ اس کی گردن اڑا دیں۔ یہ حکم سنتے ہی سب نے بیعت کی اور مطلق چوں و چرا نہ کیا۔ رجاء بن حیوٰۃ جب بیعت لے کر واپس آ رہے تھے تو راستے میں ہشام بن عبدالملک ملا اور اس نے کہا کہ مجھ کو خوف معلوم ہوتا کہ امیر المومنین نے کہیں مجھ کو محروم ہی نہ رکھا ہو۔ اگر ایسا ہے تو مجھے بتا دو تاکہ میں اپنا کچھ انتظام کروں۔ رجاء نے کہا کہ امیر المومنین نے مجھ کو سر بمہر لفافہ دیا ہے اور سب سے اس بات کو پوشیدہ رکھا‘ تم کو کیا جواب دے سکتا ہوں۔ آگے چل کر اتفاقاً عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ تعالی مل گئے۔ انہوں نے کہا کہ مجھ کو بڑا ہی خوف معلوم ہو رہا ہے کہ کہیں سلیمان نے ولی عہدی کے لیے میرا ہی نام نہ لکھ دیا ہو۔ اگر تم کو معلوم ہو تو مجھے بتا دو تاکہ میں کوشش کر کے اس مصیبت کو ٹالوں اور سبک دوشی حاصل کروں۔ رجاء نے ان کو بھی وہی جواب دیا جو ہشام بن عبدالملک کو دیا تھا۔ وفات سلیمان بن عبدالملک سنہ ۹۸ھ میں دمشق سے جہاد کے ارادے پر نکلا اور قسطنطنیہ کی طرف فوج روانہ کر کے خود مقام وابق میں مقیم رہ کر اس یورش کو کامیاب بنانے کی کوشش کرتا رہا۔ اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ سلیمان کو حالت جہاد ہی میں موت آئی۔ ۱۰ ماہ صفر سنہ ۹۹ھ بروز جمعہ سلیمان نے بمقام وابق متصل قنسرین وفات پائی۔ قریباً پونے تین سال خلافت کی اور ۴۵ سال کی عمر پائی۔ اس خلیفہ کے زمانے میں بھی مسلمانوں کو ملکی فتوحات حاصل ہوئیں۔ خلاف شرع کاموں کا رواج موقوف ہوا۔ حجاج کے عاملوں اور متوسلوں کو جہاں کہیں وہ مامور و مقرر تھے‘ موقوف و معزول کیا کیونکہ وہ بھی حجاج ہی کی طرح ظلم و تشدد کی جانب مائل تھے۔ لیکن اس میں شک نہیں کہ محمد بن قاسم رحمہ اللہ تعالی کے ساتھ جو معاملہ ہوا‘ اس میں سلیمان سے سخت غلطی ہوئی۔ سلیمان بن عبدالملک کے قابل تعریف کاموں اور عظیم الشان کارناموں میں سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ اس نے اپنے بعد عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ تعالی کو خلیفہ بنایا۔ اس ایک نیکی کے مقابلے میں سلیمان بن عبدالملک کی تمام غلطیوں اور لغزشوں کو بڑی آسانی سے فراموش کیا جا سکتا ہے اور وہ ہر ایک مدح و ستائش کا مستحق نظر آتا ہے۔ سیدنا عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ ابو حفص سیدنا عمر بن عبدالعزیز بن مروان بن حکم خلفاء راشدین میں خلیفہ خامس ہیں‘۱؎ وہ خلیفہ صالح کے نام سے بھی مشہور ہیں‘ اکثر اکابرین مسلمین کا قول ہے کہ خلفاء راشدین پانچ ہیں۔ ابوبکر ضض‘ عمرضض‘ عثمان ضض‘ علی ضض‘ عمر بن عبدالعزیز ضض‘ سیدنا عمر بن عبدالعزیز کے والد عبدالعزیز بن مروان مصر کے حاکم تھے‘ کہ ۶۲ھ میں عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ تعالی پیدا ہوئے‘ ان کی والدہ سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی پوتی یعنی عاصم بن عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی بیٹی تھیں‘ ان کے والد عبدالعزیز عبدالملک بن مروان کے بعد خلیفہ ہونے والے تھے‘ لیکن ان کا انتقال عبدالملک کے سامنے ہوا‘ لہٰذا وہ خلیفہ نہ ہو سکے۔ بچپن میں گھوڑے نے ان کے لات مار دی تھی‘ ان کے چہرے پر اس کے زخم کا نشان تھا‘ فاروق اعظم رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ میری اولاد میں سے ایک شخص ہو