تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
سمجھنے لگے‘ ان کی نیکی و پاک باطنی کے بنو امیہ بھی اسی طرح قائل تھے‘ جیسے اور لوگ‘ مگر بنی امیہ ان کے وجود کو اپنی قوم اور قبیلے کے لیے سم قاتل سمجھنے لگے۔ ایک مرتبہ بنوامیہ نے اپنی جائیدادوں کو بچانے کے لیے یہ تدبیر کی کہ عمر بن عبدالعزیز کی پھوپھی فاطمہ بنت مروان کے پاس گئے اور سفارش کرنے کی درخواست کی‘ عمر بن عبدالعزیز اپنی پھوپھی کا بہت ادب و لحاظ کرتے تھے‘ چنانچہ فاطمہ بنت مروان نے آکر بنی امیہ کی سفارش کی‘ انہوں نے پھوپھی کو اس طرح سمجھایا کہ وہ یہ کہنے پر مجبور ہوئیں کہ میں تو تمہارے بھائیوں کے اصرار سے تمہیں سمجھانے آئی تھی‘ مگر جب تمہارے ایسے پاک اور نیک خیالات ہیں تو میں کچھ نہیں کہتی‘ یہ کہہ کر واپس آئیں‘ اور بنو امیہ سے کہا کہ تم نے فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی پوتی سے رشتہ کیا تھا‘ لہٰذا وہی فاروقی رنگ اولاد میں موجود ہے۔ فضائل و خصائل ابو نعیم نے صحیح سند سے بیان کیا ہے‘ کہ ایک روز رباح بن عبیدہ نے دیکھا کہ عمر بن عبدالعزیز نماز کے لیے جارہے ہیں اور ان کے ساتھ ایک بوڑھا آدمی ان کے ہاتھ پر سہارا دیئے ہوئے چلا جا رہا ہے‘ جب نماز سے فارغ ہو کر آپ اپنے مکان میں تشریف لے آئے تو رباح نے پوچھا‘ کہ وہ بوڑھا آدمی کون تھا جو آپ کے ہاتھ کا سہارا لیے ہوئے جا رہا تھا‘ عمر بن عبدالعزیز نے یہ سن کر تعجب سے کہا کہ آہا تم نے بھی دیکھ لیا ہے‘ تم بھی ایک صالح آدمی ہو‘ لہٰذا تم کو بتا دینے میں کوئی حرج نہیں ہے‘ و خضر تھے مجھ سے امت محمدیہ کا حال پوچھنے اور عدل و انصاف کی تلقین کرنے آئے تھے۔۱؎ ایک مرتبہ ایک شخص نے سیدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ تعالی کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ میں نے رات کو خواب میں دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم تشریف رکھتے ہیں‘ آپ کے دائیں طرف صدیق اکبر رضی اللہ عنہ ‘ بائیں طرف فاروق اعظم رضی اللہ عنہ بیٹھے ہیں اور سامنے آپ (عمر بن عبدالعزیز) ہیں‘ اتنے میں دو آدمی کچھ خصومت لائے‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے آپ (عمر بن عبدالعزیز حح) سے متوجہ ہو کر فرمایا کہ اپنے دوران خلافت میں ان دونوں (ابوبکر ضض‘ عمر ضض) کے قدم بقدم چلنا‘ یہ سن کر سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ میں دیکھتا ہوں کہ یہ ایسا ہی کرتے ہیں‘ یہ خواب بیان کر کے راوی نے اس خواب پر قسم کھائی‘ تو سیدنا عمر بن عبدالعزیز رونے لگے۔ حکم بن عمر رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں کہ میں ایک روز عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ تعالی کی خدمت میں حاضر تھا کہ داروغہ اصطبل حاضر ہوا‘ اور اصطبل کا خرچ مانگنے لگا‘ آپ نے فرمایا کہ تم تمام گھوڑوں کو شام کے شہروں میں لے جا کر جس قیمت پر ممکن ہو فروخت کر کے ان کی قیمت فی سبیل اللہ دے دو‘ میرے لیے میرا ۱؎ یہ قصہ حد درجہ مشکوک ہے‘ بلکہ صحیح نہیں ہے۔ خچر ہی کافی ہے۔ زہری کا قول ہے کہ سیدنا عمر بن عبدالعزیز نے بذریعہ خط سالم بن عبداللہ سے دریافت کیا‘ کہ صدقات کے متعلق فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کا طرز عمل کیا تھا‘ انہوں نے ان کے سوال کا جواب لکھ کر آخر میں لکھا کہ اگر تم وہی عمل کرو گے‘ جو سیدنا عمر