تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
بھائی مسلمہ بن عبدالملک کو آرمینیا وآذربائیجان کی سند گورنری عطا کر کے اس طرف روانہ کیا۔ سعید حرشی کے واپس چلے جانے اور اس کی جگہ مسلمہ کے آنے سے ترکوں نے پھر مجتمع ہو کر بہت بڑی جمعیت اور بڑے سازو سامان کے ساتھ مقابلے اور حملے کی تیاریاں کیں‘ مسلمہ بن عبدالملک ایک تجربہ کار سپہ سالار اور بہادر شخص تھا وہ اپنی بزدلی کے سبب نہیں بلکہ اسلامی فوج کی قلت تعداد اور غنیم کی قوت کا صحیح اندازہ کرنے کے بعد اس خطرناک علاقہ کو چھوڑ کر جہاں ترکوں کے ہاتھ میں مال ومتاع اور عورتوں بچوں کا گرفتار ہوجانا یقینی تھا مقام دربند میں واپس چلا آیا‘ مسلمہ بن عبدالملک نے اپنی ڈیڑھ دو سال کی حکومت آرمینیا میں ترکوں کے ساتھ نرمی وملاطفت کا برتائو کیا تھا‘ اس لیے اور بھی ترکوں کو مسلمانوں کے مقابلے اور بغاوت پر آمادہ ہونے کی جرئات ہوئی۔ مسلمہ کے دربند آجائے کے بعد مروان بن محمد مروان جو مسلمہ کی فوج میں شامل تھا چھپ کر دمشق کی جانب بھاگ آیا‘ اور ہشام بن عبدالملک سے مسلمہ کی شکایت کی کہ اس نے آرمینیا وآذربائیجان میں نہایت نرمی کا برتائو کیا‘ جس کی وجہ سے ترکوں نے بغاوت پر آمادگی کا اظہار کیا‘ پھر جب کہ مقابلہ اور معرکہ کا وقت آیا تو وہاں سے پسپا ہو کر اور علاقے کو چھوڑ کر دربند میں واپس چلا آیا‘ ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ اگر آپ مجھ کو ایک لاکھ بیس ہزار جنگ جو لشکر کے ساتھ اس طرف بھیجیں‘ تو میں ترکوں کو اچھی طرح سیدھا کروں۔ چنانچہ ہشام بن عبدالملک نے مروان بن محمد بن مروان کو ایک لاکھ بیس ہزار فوج دے کر طنجر (بلاد خزر وآرمینیا) کی طرف روانہ کیا‘ اسی اثناء میں مسلمہ بن عبدالملک دربند میں بیمار ہو کر فوت ہوگیا‘ مروان کے ساتھ ایسی زبردست فوج کو دیکھ کر ترکوں کے چھکے چھوٹ گئے اور انہوں نے اطاعت قبول کر لی‘ مروان نے جیسا کہ اس نے کہا تھا بہت اچھی طرح ترکوں کو سیدھا کیا‘ اور آرمینیا وسواحل بحر خضر کے تمام علاقے میں امن وسکون قائم ہوگیا‘ مروان بن محمد کو ہشام بن عبدالملک نے ۱۱۴ھ میں فوج دیکر آرمینیا کی طرف روانہ کیا تھا۔ قیصر روم ہشام بن عبدالملک کے زمانے میں قیصر کی فوجوں کو بھی بار بار مسلمانوں نے شکستیں دیں‘ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے زمانے سے سردی اور گرمی کے موسموں میں شمال کی جانب حملہ آور ہونے والی فوجیں مقرر تھیں‘ یہ سرمائی اور گرمائی فوجیں قسطنطینہ اور قیصر کے علاقوں پر حملہ آور ہوتی رہتی تھیں‘ اور اسی لیے رومیوں پر مسلمانوں کا رعب قائم تھا‘ ہشام کے زمانے میں معاویہ بن ہشام‘ سعید بن ہشام‘ سلیمان بن ہشام‘ مسلمہ بن عبدالملک‘ مروان بن محمد‘ عباس بن ولید وغیرہ شہزادے ان فوجوں کے سردار ہو ہو کر حملہ آور ہوتے رہے‘ ان شہزادوں کے ساتھ عبداللہ بطال اور عبدالوہاب بن بخت وغیرہ مشہور شہسوار سردار ہوتے تھے‘ جن کی بہادری وجال بازی کی دھاک ملک روم میں بیٹھی ہوئی تھی‘ رومیوں کو ہشام کے عہد میں مسلمانوں کے ہاتھ سے بڑے بڑے نقصانات برداشت کرنے پڑے اور کبھی ان کو کوئی فتح مسلمانوں کے مقابلے میں حاصل نہ ہوسکی۔ اندلس میں بھی عبداللہ بن عقبہ کے کارنامے یورپ کے عیسائیوں اور عیسائی بادشاہوں کو