تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
نہ ہوتی تھی‘ تاجروں کی عزت شاہی اہل کاروں سے زیادہ ہوتی تھی‘ تاجروں کو عموماً شاہی درباروں میں بازیاب ہونے کا موقعہ دیا جاتا تھا‘ جو سوداگر باہر سے مال لاکر فروخت کرتے تھے ان کو شہر کا حاکم خوش کر کے واپس کرنے کی کوشش کرتا تھا‘ گویا ہر ایک تاجر جو باہر سے مال لے کر آیا ہے اس نے اس شہر کے حاکم پر ایک احسان کیا ہے‘ اگر تاجر کا مال فروخت نہیں ہوا ہے تو حاکم شہر یا سلطان یا خلیفہ بلا ضرورت بھی اس کے مال کو خرید لیتا اور سوداگر کو افسردہ خاطر واپس کرنا نہیں چاہتا تھا۔ جس عامل یا جس حاکم کی حدود حکومت میں تاجروں کا کوئی قافلہ لٹ جائے وہ انتہا درجہ کا غافل اور نالائق سمجھا جاتا تھا‘ تاجروں کو امرائے شہر اپنے یہاں مدعو کرتے اور عالی جاہ مہمان کی حیثیت سے اس کی مدارات بجا لاتے تھے‘ اگر کوئی سوداگر کسی دوسرے ملک سے آیا ہے تو اس کے حالات سفر سننے کے لیے خلفاء خود اس کی ضیافت کرتے اور انعام و اکرام سے مالا مال کر کے واپس کرتے تھے‘ چنانچہ اس طرز عمل نے تجارت کو خوب فروغ دے دیا تھا‘ یہی وجہ تھی کہ خلفائے عباسیہ کے زمانے میں ہر قسم کی صنعت و حرفت میں خوب ترقی ہوئی اور ہر ایک شہر کسی نہ کسی صنعت کے لیے مشہور ہو گیا‘ اسی طرح ایک جگہ کی پیداوار دوسری جگہ جانے لگی۔ اہل عرب تو قدیم ہی سے تجارت پیشہ تھے‘ لیکن خلافت عباسیہ کے عہد حکومت میں ایرانیوں کو بھی تجارت کا شوق ہو گیا‘ اور اس شوق نے یہاں تک ترقی کی کہ مسلمان سوداگر شمال میں بحر شمالی کے ساحل تک اور جنوب میں افریقہ کے جنوب تک پہنچنے لگے‘ جس کے ثبوت میں خلفاء عباسیہ کے عہد کی بغدادی مصنوعات سویڈن اور مڈغا سکر میں علمائے طبقات الارض نے تلاش کی ہے‘ بعض خلفاء مثلاً واثق باللہ نے باہر سے آنے والے سوداگروں اور تمام اشیاء درآمد پر محصول معاف کر دیا تھا۔ سرکاری محاصل زراعت اور غلہ کی پیداوار پر بجائے نقد روپیہ وصول کرنے کے عموماً (بٹائی) مقاسمہ کا قاعدہ جاری تھا‘ پیداوار کا ۵/۲ حصہ سرکاری خزانہ کے لیے لیا جاتا تھا اور ۵/۳ کاشت کار کو چھوڑ دیا جاتا تھا‘ جہاں کاشت کار کو آبپاشی کے لیے محنت کرنی پڑتی تھی وہاں کاشت کار کو ۴/۳ چھوڑ دیا جاتا تھا‘ اور لگان سرکاری صرف چوتھائی حصہ لیا جاتا تھا‘ بعض زمینوں کی پیداوار پر صرف ۵/۱ لیا جاتا تھا اور ۵/۴ کاشتکار کے قبضہ میں رہتا تھا۔ انگوروں اور کھجوروں وغیرہ کے باغات پر اسی مقاسمہ کے اصول کو مد نظر رکھ کر نقد لگان لگا دیا جاتا تھا اور نقدی کی شکل میں وصول ہوتا تھا‘ بعض صوبے مثلاً بحرین‘ عراق‘ جزیرہ وغیرہ میں بکثرت ایسے کا شتکار تھے کہ ان کی زمینوں پر خلافت راشدہ کے زمانہ میں بوقت فتح معاہدہ کے ذریعہ پیداوار پر محصول مقرر کر دیا گیا تھا وہ گویا استمراری بندوبست تھا‘ ان کاشتکاروں پر کوئی اضافہ نہیں ہو سکتا تھا۔ محصول تشخیص کرنے کے وقت اکثر زمینیں بلا محصول چھوڑ دی جاتی تھیں اور کاشت کاروں کو ذرا ذرا سے بہانوں پر محصول معاف کر دیا جاتا تھا‘ حکومت کی نظر اس بات پر زیادہ رہتی تھی کہ کاشت کار خوش حال اور فارغ البال رہیں تاکہ علاقہ کی آبادی اور سرسبزی میں فرق نہ آنے پائے‘ ملک کا بہت بڑا رقبہ ایسا تھا کہ اس پر پیداوار کا صرف دسواں حصہ مقرر تھا۔