تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
امیر مہلب سے کہہ دوں گا کہ آپ کا خط آنے سے پہلے میں روپیہ لے کر لڑکے واپس دے چکا تھا‘ اہل کش نے فوراً روپیہ ادا کر دیا اور لڑکے واپس لے لیے۔ راستے میں ترکوں نے حریث کے ساتھ بھی وہی برتائو کیا جو یزید کے ساتھ کیا تھا‘ لڑائی ہوئی‘ بہت سے آدمی حریث کے مارے گئے‘ بہت سے ترکوں نے گرفتار کر لیے‘ اور پھر ان گرفتاروں کو زیر فدیہ لے کر واپس کیا۔ جب مہلب کے پاس حریث بن قطنہ پہنچا تو اس نے اپنے حکم کی خلاف ورزی کی سزا میں کوڑے لگوائے‘ اس سزا کے بعد حریث نے لوگوں کے سامنے مہلب کے مار ڈالنے کی قسم کھائی‘ مہلب کو اس کا حال معلوم ہوا تو اس نے حریث کے بھائی ثابت بن قطنہ کو بلا کر نرمی کے ساتھ سمجھایا‘ اور حریث کو اپنے سامنے بلوایا‘ حریث نے مہلب کے سامنے بھی اپنی گستاخانہ قسم کا اعادہ کیا‘ مہلب نے چشم پوشی کی راہ سے رخصت کر دیا‘ حریث و ثابت اب اپنے دل میں ڈرے اور اپنے تین ہمراہیوں کو لے کر مہلب کے پاس سے بھاگ گئے‘ اور سیدھے موسیٰ بن عبداللہ بن حازم کے پاس مقام ترمذ میں پہنچ گئے‘ موسیٰ بن عبداللہ بن حازم کا حال اوپر پڑھ چکے ہو کہ اس نے اپنی ایک الگ خود مختار حکومت قائم کر لی تھی اور خراسان کے امیروں سے بر سر پرخاش رہتا تھا‘ یہ واقعہ ۸۲ھ کا ہے۔ مہلب کی وفات اور بیٹوں کو وصیت مہلب کو اپنے بیٹے مغیرہ کی وفات کا سخت صدمہ ہوا تھا‘ مرو میں واپس آکر وہ زیادہ دن نہیں رہا ۸۲ھ کے آخری مہینوں میں بیمار رہ کر مرو میں فوت ہوا‘ امیر مہلب کی بہادری نیک طینتی اور وفاداری خاص طور پر مشہور ہے‘ مہلب کا چال چلن کبھی بد عہدی و بے وفائی اور غدر و بغاوت سے ملوث نہیں ہوا۔ اس نے ہمیشہ خلیفہ وقت کی اطاعت اور اس کے ہر حکم کی تعمیل کو ضروری سمجھا‘ مرتے وقت اپنے بیٹے یزید کو اپنی جگہ خراسان کا امیر اور دوسرے بیٹے حبیب کو نمازوں کا امام مقرر کر گیا اور تمام بیٹوں کو جمع کر کے اس طرح وصیت کی کہ: ’’میں تم کو اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہنے کی وصیت کرتا ہوں‘ کیوں کہ اس سے عمر کی درازی‘ مال کی زیادتی اور نفوس کی کثرت ہوتی ہے‘ خوف اللہ تعالیٰ اور صلہ رحم کے ترک کرنے سے میں تم کو منع کرتا ہوں‘ کیونکہ ان کے ترک کرنے سے دوزخ میں جانے کا سامان ہوتا ہے‘ ذلت حاصل ہوتی ہے‘ اور نفوس کی کمی ہو جاتی ہے‘ تم پر امیر کی اطاعت اور جماعت مسلمین سے اتفاق کرنا فرض ہے‘ مناسب یہ ہے کہ تمہارے افعال تمہارے اقوال سے بہتر ہوں‘ جلد جواب دینے سے پرہیز کرو اور زبان کو لغزش سے بچائو‘ کیونکہ آدمی پائوں کی لغزش سے سنبھل جاتا ہے اور زبان کی لغزش سے مارا جاتا ہے‘ جن لوگوں کے حقوق تم پر ہوں ان کو ادا کرو‘ لوگوں کے حقوق ادا کرنا صبح شام بیٹھ کر باتیں بنانے اور فضول کہنے سے بہتر ہے‘ خوشامدیوں کی خوشامد میں نہ آجانا‘ سخاوت کو کنجوسی پر ترجیح دینا‘ نیکی کو زندہ رکھو‘ اور ہمیشہ نیک کام کرنے کی کوشش کرو‘ لڑائی میں چوکس اور ہوشیار رہنے کا زیادہ خیال رکھنا‘ کیونکہ یہ شجاعت زیادہ مفید ہے جس وقت مقابلہ ہوتا ہے اس وقت آسمان سے قضا نازل ہوتی ہے‘ اگر آدمی نے ہمت باندھ لی اور ہوشیاری سے کام لیا تو کامیاب ہو گیااور اگر بدحواسی چھا گئی تو ناکام رہا‘ لیکن سب پر حکم الٰہی غالب ہے‘ قرأت قرآن تعلیم سنن اور آداب صالحین اپنے اوپر فرض کر لو‘ اور اپنی مجلس میں زیادہ گفتگو کرنے سے پرہیز کرو‘‘۔