تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
لیے مخصوص کر دیا ہے۔ امین کے بعد مامون خلیفہ ہو گا وغیرہ۔ یہ سب کچھ اسی عہد نامہ میں تصریح تھی جس پر امین و مامون وغیرہ سب کے دستخط و اقرار تھے اور جو خانۂ کعبہ میں آویزاں کیا گیا تھا۔ اس طرح ہارون الرشید نے اپنی سلطنت کو اپنے بیٹوں میں تقسیم کر کے آئندہ کے لیے ان میں لڑائی جھگڑے پیدا ہونے کا امکان مٹانا چاہا تھا‘ لیکن یہ ہارون الرشید کی کوئی عاقلانہ حرکت نہ تھی۔ غالباً محبت پدری نے اس کو ایک ایسی حرکت اور ایسے کام پر آمادہ کر دیا جس کو کسی طرح بھی کامیابی کا منہ دیکھنا نصیب نہیں ہو سکتا تھا۔ ہارون الرشید کا قابل تذکرہ حج خلیفہ ہارون الرشید کو حج کرنے کا بہت ہی شوق تھا وہ کسی سخت مجبوری کے بغیر حج کو نہ چھوڑتا۔ اس کا دستور تھا کہ ایک سال کفار پر جہاد کرتا اور ایک سال حج کے لیے جاتا۔ کسی خلیفہ نے اس قدر حج نہیں کئے جس قدر ہارون الرشید نے کئے ہیں۔ مگر ۱۸۶ھ کا حج اس لیے خصوصیت کے ساتھ قابل تذکرہ ہے کہ اسی حج کے ایام میں خانۂ کعبہ پر وہ عہد نامہ لٹکایا گیا جس کا اوپر ذکر ہو چکا ہے۔ اور اسی حج سے فارغ ہو کر ہارون الرشید نے خاندان برامکہ کی طاقت کو توڑا۔ ہارون الرشید نے انبار سے بقصد حج مکہ معظمہ کی طرف کوچ کیا۔ اس کے ہمراہ اس کے تینوں بیٹے امین و مامون و موتمن تھے۔ جعفر بن یحییٰ بھی جو آج کل وزیراعظم تھا‘ اس کے ساتھ تھا۔ مکہ معظمہ میں حج سے فارغ ہو کر مدینہ منورہ گیا۔ اہل مکہ اور اہل مدینہ کو اپنی داد و دہش اور انعامات سے مالا مال کر دیا۔ اپنی اور اپنے بیٹوں کی طرف سے ایک کروڑ پانچ لاکھ اشرفیاں خیرات میں تقسیم کیں۔ مدینہ منورہ سے فارغ ہو کر واپس لوٹا اور مقام انبار میں قیام کیا۔ اسی مقام پر جعفر بن یحییٰ برمکی کو محرم ۱۸۷ھ کی آخری تاریخ میں قتل کرا دیا۔ برامکہ اور ان کا زوال خلیفہ ہارون الرشید کی خلافت کے حالات بیان کرتے ہوئے اس وقت ہم ۱۸۷ھ تک پہنچ گئے ہیں۔ اس سال کے ابتدائی مہینہ میں ہارون الرشید نے اپنے وزیر جعفر برمکی کو قتل کرایا اور اس کے بھائی فضل اور باپ یحییٰ کو قید کر دیا۔ بادشاہوں اور خلیفوں کے حالات میں کسی وزیر کا قتل ہونا اور کسی وزیر کا قید ہونا کوئی غیر معمولی اور بہت ہی عظیم الشان واقعہ نہیں ہوا کرتا۔ فرمانروائوں کی تاریخ اسی قسم کے واقعات سے لبریز ہوا کرتی ہے۔ بادشاہوں کے کارنامے عموماً خون کی روشنائی سے لکھے جاتے ہیں۔ لیکن برامکہ کے زوال اور جعفر کے قتل کا معمولی واقعہ ہنگامہ پسند اور واقعہ پرست لوگوں اور دروغ باف قصہ گویوں‘ ناول نویسوں اور عجائب پرست جاہلوں کی بدولت ایسی بد نما صورت اختیار کر چکا ہے کہ جس طرح آج محمود غزنوی اور اورنگ زیب عالمگیر کی نسبت بہت سے پڑھے لکھے جاہل اور عاقل نما احمق‘ غلط فہمی میں مبتلا ہو کر دوسروں کو غلط فہمی میں مبتلا کرتے اور مقصد اسلامی کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ تو جس طرح محمود و عالمگیر کے متعلق ضرورت پیدا ہو گئی ہے کہ جھوٹ کو جھوٹ ثابت کر کے آئینہ حقیقت نما سامنے رکھ دیا جائے‘ اسی طرح ضرورت ہے کہ قتل جعفر اور زوال برامکہ پر بھی کسی قدر وسیع کلام کر کے دروغ کے فروغ کو مٹا دیا جائے۔ لہٰذا ضرورتاً ۱۸۷ھ کے اس واقعہ کو کسی قدر تفصیل سے بیان کیا جاتا ہے۔ سب سے