تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
گئی تھی‘ تو وہ اپنی بہن کو تو ہرگز شراب خوری پر آمادہ نہیں کر سکتا تھا۔ اس کی چہیتی بیوی زبیدہ جس کے ساتھ اس کی محبت حد سے زیادہ بڑھی ہوئی تھی‘ غالباً سب سے پہلے اس شراب خوری میں اس کی شریک ہو سکتی تھی۔ لیکن زبیدہ خاتون کی نسبت تو کسی نے اس قسم کا کوئی اشارہ تک بھی نہیں کیا اور اس کی زندگی کے دامن پر اس پلید چیز کی ذرا سی بھی کوئی چھینٹ نہیں پڑنے پائی۔ کیسے تعجب کی بات ہے کہ زبیدہ خاتون کے محل میں تو ہر وقت قرآن خوانی ہو رہی ہے اور اس کا عاشق زار خاوند جعفر و عباسہ کے ساتھ مصروف شراب نوشی ہے۔ (۶) مئورخین نے یہ واقعہ بوثوق نقل کیا ہے کہ حکیم جبرئیل ایک یہودی طبیب ہارون الرشید کے دربار میں تھا اور دستر خوان پر خلیفہ کے ساتھ ہوتا اور کوئی مضر چیز دیکھتا تو خلیفہ کو اس کے کھانے سے روک دیتا تھا۔ ایک مرتبہ خلیفہ کے لیے مچھلی خوان میں لگ کر آئی۔ خلیفہ نے اس کے کھانے کا ارادہ کیا‘ حکیم نے خلیفہ کو اس کے کھانے سے روک دیا اور خانساماں سے کہا کہ اس کو اٹھا کر لے جائو۔ اس کے بعد اتفاقاً خلیفہ کے کسی خادم نے دیکھا کہ اسی مچھلی کو حکیم جبرئیل اپنی قیام گاہ پر جا کر خود نوش فرما رہے ہیں۔ اس وقت یہ حقیقت کھلی کہ حکیم نے مچھلی کو اپنے کھانے کے لیے روکا اور ہارون کو اس کے کھانے سے باز رکھا تھا۔ خادم نے یہ خبر خلیفہ کو پہنچا دی۔ بات تو یہ محض ہنسی کی تھی اور ہارون سوائے ہنسنے کے حکیم کو اور کچھ نہ کہتا۔ لیکن حکیم کو جب معلوم ہوا کہ خلیفہ میری اس حرکت سے مطلع ہو چکا ہے تو اس نے مچھلی کے تین قتلے الگ الگ تین پیالوں میں رکھے۔ ایک پیالے میں گوشت اور دوسری کھانے کی چیزیں جو دستر خوان پر ہارون نے کھائی تھیں ملا دیں تھیں۔ دوسرے قتلے پر برف کا پانی ڈالا تھا۔ تیسرے پیالے میں شراب ڈال دی تھی۔ یہ تینوں پیالے خلیفہ کی خدمت میں پیش کر کے کہا کہ ان دونوں پیالوں میں آپ کا کھانا ہے اور اس تیسرے پیالے میں میرا کھانا ہے۔ دیکھا تو وہ دونوں قتلے چند ہی گھنٹے کے بعد سڑ کر بدبو دینے لگے تھے اور جس پیالے میں شراب تھی اس میں مچھلی کا گوشت پانی ہو کر شراب میں مل گیا تھا۔ اس طرح حکیم نے اپنی شرمندگی دور کی اور خلیفہ کو بتایا کہ میں چونکہ شراب پیتا ہوں لہٰذا میرے لیے یہ مچھلی نقصان رساں نہ تھی اور آپ چونکہ شراب نہیں پی سکتے لہٰذا میں نے مچھلی کو روک دیا تھا۔ اس حکایت سے بھی صاف ثابت ہے کہ ہارون الرشید کو شراب سے کوئی تعلق نہ تھا۔ (۷) حقیقت یہ ہے کہ عباسہ کی شادی ہارون نے محمد بن سلیمان سے کر دی تھی۔ جب محمد بن سلیمان کے فوت ہونے پر عباسہ بیوہ ہو گئی تھی تو اس کی دوسری شادی ابراہیم بن صالح بن علی سے کر دی‘ جو ہارون کے قریبی رشتہ دار اور آل عباس سے تھے۔ ایک ایسی شریف و پاک باز عورت کی نسبت ایسا سفید اور بے سروپا جھوٹ بولنا‘ جھوٹ بولنے والے کی انتہائی رذالت و کمینہ پن کا ثبوت ہے اور جو شخص اس جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کی کوشش کرے اس کی افتاد فطرت بھی یقینا بہت ہی پست و ذلیل ثابت ہو جاتی ہے۔ پھر سب سے عجیب بات اس سفید جھوٹ میں یہ ہے کہ جعفر و عباسہ کے ایک دوسرے کے چہرے پر نظر ڈالنے کو مباح کرنے میں تو ہارون کو شریعت کی پابندی کا اس قدر زیادہ خیال تھا لیکن شراب خوری کرتے ہوئے وہ شریعت کو بالکل بھول جاتا تھا۔ استیصال برامکہ کی اصل حقیقت