تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کے بھائی مصعب بن زبیر رضی اللہ عنھما عراقیوں کی بے وفائی سے قتل ہو گئے‘ اور تمام ملک عراق پر عبدالملک بن مروان کا قبضہ ہو گیا‘ تو انہوں نے اہل مکہ کو جمع کر کے اس طرح تقریر فرمائی کہ: ’’ الحمدللہ الذی لہ الخلق والامریوتی الملک من یشاء وینزع الملک ممن یشاء ویعزل من یشاء ویذل من یشاء۔ آپ لوگوں کو معلوم ہونا چاہیئے‘ کہ اللہ تعالیٰ اس شخص کو ذلیل نہیں کیا کرتا‘ جو حق پر ہو چاہے وہ اکیلا ہی کیوں نہ ہو‘ اور اس کی عزت نہیں کرتا‘ جس کا ولی شیطان ہو‘ چاہے اس کے ساتھ بہت سے آدمی کیوں نہ ہوں‘ اور آپ لوگوں کو معلوم ہوناچاہیئے کہ ہمارے پاس ملک عراق سے ہم کو غمگین اور خوش کرنے والی خبر آئی ہے یعنی ہمارے پاس مصعب کے قتل کی خبر آئی ‘ ہم خوش اس لیے ہوئے ہیں کہ اس کا قتل ہونا شہادت ہے‘ اور ہم رنجیدہ اس لیے ہیں کہ دوست کی جدائی مصیبت کے وقت ایک سوزش ہوتی ہے۔ جس کا دوست کو احساس ہوتا ہے‘ صاحب عقل سلیم صبر و استقامت ہی سے کام لیتا ہے‘ مصعب کیا تھا؟ وہ اللہ کے بندوں میں ایک بندہ اور میرے مددگاروں میں سے ایک مددگار تھا۔ آپ کو معلوم ہونا چاہیئے کہ اہل عراق بڑے بے وفا اور منافق ہیں انہوں نے ان منافع کو جو مصعب کے ذریعہ ان کاحاصل تھے بہت ہی کم قیمت پر بیچ ڈالا‘ مصعب اگر قتل ہوا تو اس کے باپ بھائی اور ابن عمر بھی تو قتل ہی ہوئے تھے‘ جو نہایت نیک اور صالح تھے‘ اور اللہ کی قسم ہم اپنے بستروں پر اس طرح نہ مریں گے‘ جیسے کہ ابوالعاص کی اولاد اپنے بستروں پر مر رہی ہے۔ اللہ کی قسم ان لوگوں میں سے کوئی شخص نہ کبھی جاہلیت میں مارا گیا‘ اور نہ اسلام میں‘ اور ہم نیزوں کے زخم کھا کر تلواروں کے نیچے دم دیا کرتے تھے‘ اور بھائیو آگاہ رہو کہ دنیا اس عظیم الشان شہنشاہ سے ادھار لی گئی ہے جس کی حکومت ہمیشہ رہے گی اور جس کا ملک کبھی زائل نہ ہو گا۔ پس اگر دنیا ہمارے پاس آئے گی تو ہم اس کو کمینہ و گمراہ و رذیل و ناہنجار لوگوں کی طرح نہ لیں گے‘ اور اگر وہ ہم سے پشت پھیر کر بھاگے گی تو ہم اس پر کم زور و ناتواں او ضعیف و بے اوسان لوگوں کی طرح نہ روئیں گے۔ بس مجھ کو یہی کہنا تھا‘ اور میں اپنے اور تمہارے لیے اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کرتا ہوں‘‘۔ عبدالملک اور سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنھما عبدالملک نے عراق پر قابض ہو متصرف ہونے کے بعد عروہ بن انیف کو چھ ہزار آدمیوں کے ساتھ مدینہ منورہ کی طرف روانہ کیا‘ اور حکم دیا کہ مدینہ کے باہر قیام کرنا‘ جب تک میرا دوسرا حکم نہ پہنچے مدینہ میں ہر گز داخل نہ ہونا‘ مدینہ میں حرث بن حاطب بن معمر صمجی سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنھما کی طرف سے حاکم و عامل مقرر تھے‘ عروہ کے قریب پہنچنے کی خبر سن کر حرث مدینہ سے چل دئیے‘ عروہ ایک مہینہ تک مدینہ کے باہر مقیم رہا‘ اور بلا کسی چھیڑ چھاڑ کے عبدالملک کے حکم کے موافق دمشق کو واپس گیا‘ اورحرث پھر مدینہ میں واپس چلے گئے۔ سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنھما نے سلیمان بن خالد کو خیبر وفدک کا عامل مقرر فرما کر روانہ کیا تھا‘ عبدالملک نے حرث بن حکم کو چار ہزار فوج دے کر روانہ کیا کہ حجاز پر تصرف کرتا ہوا چلا جائے‘ اس نے وادی القریٰ میں پہنچ کر مقام کیا اور وہاں سے ابن قمقام کو ایک دستہ فوج کے ساتھ خیبر کی طرف روانہ کیا‘ کہ سلیمان پر شب خون مارو‘ سلیمان گرفتار ہو کر مقتول ہوا‘ اور ابن قمقام نے خیبر میں قیام کیا۔ سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنھما نے حجاز پر حملہ آوری کی خبر سن کر حرث بن