تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
ہارون الرشید کے ہمراہیوں کے نام لکھ کر بھیجے تھے جن میں ہارون الرشید کی فوت شدہ تصور کر کے اپنی بیعت کے لیے لکھا تھا۔ ایک خط امین نے اپنے بھائی صالح کے نام لکھا تھا کہ لشکر و اسباب اور خزانہ لے کر فضل بن ربیع کے مشورے سے فوراً میرے پاس چلے آئو۔ اسی مضمون کے خطوط اس نے ہارون الرشید کے دوسرے ہمراہیوں کو بھی لکھے تھے۔ اسی مضمون کا ایک خط فضل بن ربیع کے نام تھا۔ انھیں خطوط میں اس نے تمام سرداروں کو ان کے عہدوں پر قائم رکھنے کے لیے بھی وعدہ کیا تھا۔ بکر بن العمر کے آنے کی اطلاع ہارون کو اتفاقاً ہو گئی۔ اس نے بکر کو اپنے سامنے بلایا اور آنے کا سبب دریافت کیا۔ اس نے کوئی معقول جواب نہ دیا تو ہارون نے اس کو قید کر دیا۔ اس واقعہ کے بعد ہی ہارون الرشید کا انتقال ہو گیا۔ فضل بن ربیع نے بکر کو جیل خانے سے نکلوایا۔ اس نے امین کے وہ خطوط دئیے‘ ان خطوط کو پڑھ کر سرداروں نے آپس میں مشورہ کیا۔ چونکہ سب اپنے وطن بغداد کی طرف جانے کے آرزو مند تھے‘ فضل بن ربیع سب کو لے کر بغداد کی طرف روانہ ہو گیا۔ اور ہارون نے جو وصیت کی تھی اور مامون سے جو ان کے عہد و میثاق تھے سب فراموش کر دئیے۔ امین الرشید بن ہارون الرشید محمد امین بن ہارون بن مہدی بن منصور عباسی زبیدہ خاتون کے پیٹ سے پیدا ہوا تھا۔ امین و مامون دونوں ہم عمر تھے۔ ہارون الرشید نے اپنے بعد امین کو تخت خلافت کا وارث مقرر کیا تھا۔ لیکن ساتھ ہی مامون کو خراسان وغیرہ ممالک مشرقیہ کا مستقل حاکم بنا کر امین کو وصیت کی تھی کہ مامون کو خراسان کی حکومت سے معزول نہ کرے‘ اور مامون کو نصیحت کی تھی کہ امین کی اطاعت و سیادت سے انکار نہ کرے۔ طوس میں جب ہارون الرشید کا انتقال ہوا ہے تو مامون مرو میں تھا اور امین بغداد میں۔ صالح ہارون الرشید کے ہمراہ تھا۔ ہارون کی وفات سے اگلے دن یعنی ۴ جمادی الثانی ۱۹۳ھ کو طوس میں لشکر ہارون اور موجودہ سرداروں نے امین کی خلافت پر نیابتاً صالح کے ہاتھ پر بیعت کی۔ اور محکمہ ڈاک کے افسر حمویہ نے فوراً اپنے نائب کو جو بغداد میں تھا اس واقعہ کی اطلاع دی۔ چنانچہ اسی نے فوراً امین کو ہارون الرشید کے مرنے اور اس کے خلیفہ تسلیم ہونے کی خبر سنائی۔ صالح بن ہارون الرشید نے بھی اپنے بھائی امین کی خدمت میں اس واقعہ کو لکھا اور خلافت کی مبارک باد دی اور ساتھ ہی خاتم خلافت‘ عصا اور چادر بھیج دی۔ ان ایام میں ہارون الرشید کی بیوی اور امین کی ماں زبیدہ خاتون شہر رقہ میں اقامت گزیں تھی اور خزانہ خلافت اسی کے قبضہ میں تھا‘ امین نے ان خبروں اور خطوں کے آنے پر جامع مسجد میں جا کر لوگوں کے سامنے خطبہ دیا۔ خلیفہ ہارون الرشید کی وفات کا حال سنایا اور لوگوں سے بیعت لی۔ زبیدہ خاتون اس خبر کو سن کر رقہ سے بغداد کی طرف معہ خزانہ شاہی روانہ ہوئی۔ اس کے آنے کی خبر سن کر امین نے مقام انبار میں اس کا استقبال کیا اور عزت و احترام کے ساتھ بغداد میں لایا۔ مامون نے مرو میں باپ کے مرنے کی خبر سنی تو امیروں اور سپہ سالاروں کو جو وہاں موجود تھے جمع کیا اور اپنے لیے مشورہ طلب کیا کہ مجھ کو اب کیا کرنا چاہیئے۔ ان امیروں اور سپہ سالاروں میں عبداللہ بن مالک۔ یحییٰ بن معاذ۔ شبیب بن حمید بن قحطبہ‘ علامہ حاجب‘ عباس بن زہیر‘ ایوب بن ابی سمیر۔ عبدالرحمن بن عبدالملک بن صالح۔ فضل بن سہل قابل تذکرہ تھے۔ بغداد سے روانہ ہو کر جرجان تک مامون اور یہ تمام سردار بھی