تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
۱؎ سیرت ابن ہشام (مترجم) شائع کردہ مقبول اکیڈمی‘ لاہور‘ صفحہ۴۹۹ و ۵۰۰۔ الرحیق المختوم (اردو)‘ صفحہ ۵۵۰ و ۵۵۱۔ قلب میں یہ خیال باقی نہ رہ سکے کہ محض قوم یا نسل یا خاندان کی وجہ سے کوئی معظم و مکرم بن سکتا ہے۔ حکومت و خلافت اگر کسی خاص قبیلہ اور خاص خاندان کا حق ہوتا‘ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم صوبوں اور ولایتوں کی حکومت میں بنی ہاشم کے سوا کسی دوسرے کو عامل بنا کر نہ بھیجتے اور فوجوں کی سپہ سالاری سوائے بنی ہاشم کے کسی دوسرے کو عطا نہ فرماتے‘ لیکن آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے بہت ہی کم کسی ہاشمی کو فوج کی سپہ سالاری یا کسی ولایت کی حکومت پر مامور فرمایا‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمیشہ ذاتی قابلیت کے موافق لوگوں کو سرداریاں اور حکومتیں عطا فرمائیں‘ اور کسی خاندان یا قبیلہ سے تعلق رکھنے کو حکومت و سرداری کے لیے جائز استحقاق نہیں سمجھا‘ یہی سبب تھا کہ دربار نبوی صلی اللہ علیہ و سلم سے غلاموں تک کو قابلیت کے سبب اکابر قریش کی سرداری اور عظیم الشان فوجوں کی سپہ سالاری حاصل ہو سکتی تھی‘ توحید کامل سکھانے والے استاد کامل سے اس کے سوا کسی دوسرے طرز عمل کی توقع بھی نہیں ہو سکتی تھی۔ بنی ہاشم اور بنی امیہ کی رقابت قبیلہ بنی امیہ اور بنی ہاشم میں پہلے سے ایک رقابت اور مسابقت چلی آتی تھی‘ یعنی ان دونوں میں ہر ایک دوسرے سے بازی لے جانے کی کوشش کرتا تھا‘ غالباً یہی وجہ تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی (جو بنی ہاشم میں سے تھے) بنو امیہ نے ابتداء میں زیادہ مخالفت کی اور بنو ہاشم سے نسبتاً آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو امداد پہنچی‘ جب ملک عرب سے مشرکوں کا استیصال ہو گیا‘ اور ان دونوں قبائل کے عنادی مشرک بھی قتل ہو کر بقیہ خوش نصیب اسلام میں داخل ہو گئے تو ان مسلمان ہو جانے والے بنی امیہ میں ایک کافی تعداد ذی حوصلہ اور قابل آدمیوں کی موجود تھی جن کی قدر دانی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے علیٰ قدر قابلیت ضروری سمجھی۔ چنانچہ فتح مکہ کے روز ابو سفیان رضی اللہ عنہ کے گھر کو امان کے معاملہ میں کعبہ کا ہمسر ٹھہرا کر انہیں خوش کر دیا۔ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ جو بنی امیہ میں سے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے داماد تھے‘ ان کے لیے بیعت رضوان ہوئی۔ ام المومنین ام حبیبہ رضی اللہ عنھا بھی بنو امیہ کے قبیلہ سے یعنی ابو سفیان رضی اللہ عنہ کی بیٹی اور معاویہ رضی اللہ عنہ کی بہن تھیں۔ ابو سفیان رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے نجران کا عامل مقرر فرمایا تھا۔ عثمان بن ابو العاص رضی اللہ عنہ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے چچا تھے‘ ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے طائف اور اس کے متعلقات کا گورنر مقرر فرمایا تھا۔ فاروق اعظم نے ان کو عمان و بحرین کا حاکم مقرر فرمایا‘ عتاب بن اسید رضی اللہ عنہ ابو سفیان کے چچا ابو العیص کے پوتے تھے‘ مکہ کی فتح کے دن مسلمان ہوئے اور مکہ کے حاکم مقرر کئے گئے۔ خالد بن سعید ابو سفیان کے چچا عاص کے پوتے تھے‘ ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے یمن کا عامل مقرر فرمایا تھا۔ یہ جنگ یرموک میں شہید ہوئے۔ عثمان بن سعید کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے خیبر کا اور ان کے بھائی ابان کو بحرین کا عامل مقرر فرمایا تھا۔ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے دل میں بنو امیہ