تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کر کے واپس چلا جائے گا۔ نائل بن قیس اپنے مذہب اور عقیدے کی وجہ سے جنگ کرتا ہے‘ وہ جس ایک شہر پر قابض ہو گیا ہے چاہتا ہے کہ اس کو اپنے قبضے میں رکھے‘ میں اس کو چھوڑ دوں گا تاکہ وہ اسی میں مشغول رہے۔ وہ خوارج جو جیل خانہ توڑ کر بھاگ گئے ہیں اللہ تعالیٰ کے قید خانہ سے بھاگ کر کہاں جائیں گے۔ لیکن سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے معاملہ میں ہم کو سوچنے اور تدبیر کرنے کی ضرورت ہے‘ کہ کس طرح ان سے خون عثمان رضی اللہ عنہ کا بدلہ لیا جائے۔ اس کے بعد وہ سیدھے ہو کر بیٹھ گئے‘ اسی وقت ہر ایک معاملہ کے متعلق بندوبست کے احکام جاری کر دئیے۔ اور پھر بدستور سابق تکیہ لگا کر بیٹھ گئے۔۱؎ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ملک شام میں امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی شان و شکوہ دیکھ کر فرمایا تھا کہ جس طرح ایران میں کسریٰ اور روم کے قیصر ہیں اسی طرح عرب میں معاویہ رضی اللہ عنہ ہے۔ اب صحابہ رضی اللہ عنھم کی سب سے آخری حکومت و سلطنت ہو گی جس کا ذکر آئندہ صفحات میں آنے والا ہے۔ یزید بن معاویہ رضی اللہ عنہ ابو خالد یزید بن معاویہ رضی اللہ عنہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ ۶۵ھ یا ۶۶ھ میں جب کہ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ تمام ملک شام کے حاکم تھے پیدا ہوئے‘ اس کی ماں کا نام میسون بنت بحدل تھا جو قبیلہ بنو کلب میں سے تھی‘ نہایت موٹا تازہ آدمی تھا‘ اس کے جسم پر بال بہت زیادہ تھے‘ یزید نے پیدا ہوتے ہی حکومت و امارت کے گھر میں آنکھیں کھولی تھیں۔ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ بہت ذی ہوش و مآل اندیش شخص تھے انہوں نے یزید کی تعلیم و تربیت کی طرف خاص طور پر اپنی توجہ منعطف رکھی تھی ایک یا دو مرتبہ اس کو امیر حج بھی بنا کر بھیجا گیا تھا‘ فوج و لشکر کی سرداری بھی اس کو دی تھی‘ قسطنطنیہ کے حملے اور محاصرے میں بھی وہ ایک حصہ فوج کا سردار تھا‘ اس کو شکار کا بہت شوق تھا‘ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے مرض الموت میں وہ دمشق کے اندر موجود نہ تھا‘ آدمی بھیج کر اس کو بلوایا گیااور امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے اس کو وصیت کی لیکن اس وصیت کے بعد ہی وہ باپ کے مرض کو خطرناک نہ سمجھ کر پھر شکار پر چلا گیا‘ چنانچہ جب سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ فوت ہوئے تو وہ دمشق میں موجود نہ تھا‘ کئی دن کے بعد واپس آیا اور ان کی قبر پر نماز جنازہ پڑھی‘ ۱؎ اس واقعہ کا نفس مضمون ہی بتا رہا ہے کہ یہ جھوٹا واقعہ ہے‘ یعنی امیر معاویہ رضی اللہ عنہ قیصر روم اور خوارج کے حملہ آور ہونے کی رپورٹیں سن کر تو آرام سے بیٹھے رہے لیکن علی رضی اللہ عنہ کی خبر سن کر مقابلہ کے لیے تیار ہو گئے۔ شعر و شاعری میں بھی اس کو دست گاہ کامل حاصل تھی‘ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی زندگی میں اس کے لیے بیعت ہو چکی تھی‘ لیکن اکثر لوگ اسی وجہ سے اور بھی زیادہ اس کی طرف سے منقبض اور دل سے ناراض تھے‘ مدینہ منورہ کے بعض اکابر نے تو بیعت سے قطعی انکار کر دیا تھا۔ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا اپنی زندگی میں یزید کے لیے بیعت لینا ایک سخت غلطی تھی‘ یہ غلطی غالباً محبت پدری کے سبب ان سے سرزد ہوئی‘ لیکن مغیرہ بن شعبہ