تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
ملکی کے اعتبار سے بنو عباس کی خلافت سخت ناکام ثابت ہوئی کیونکہ وہ بنو امیہ کے فتح کئے ہوئے ملکوں کو بھی نہ سنبھال سکی۔ ایک بہتان کی تردید ہندوستان کی تاریخوں کے نہایت ہی ناقص و نا تمام خلاصے جن کو تاریخ کہنا بھی غلطی میں شامل ہے اور یہ سرکاری مدارس میں پڑھائے جاتے ہیں۔ یہ کتابیں غالباً سیاسی اغراض کے مد نظر رکھ کر لکھی جاتی ہیں اور ان کے مصنفین بعض اوقات ایسی بے بنیاد باتیں ان میں درج کر دیتے ہیں جس سے ہندوستانی بچے غلط فہمی میں مبتلا ہو کر حقیقت کے خلاف غلط عقیدہ قائم کر لیتے ہیں۔ اسی قسم کی غلط بیانی کے ایک تیر کا مجروح مامون الرشید کو بھی بنایا گیا ہے۔ غالباً تیس چالیس سال ہوئے۱؎ جب راجہ شیو پرشاد ستارئہ ہند کی لکھی ہوئی ایک کتاب سرکاری مدارس میں پڑھائی جاتی تھی‘ اس میں لکھا تھا کہ راجپوتانہ کے ایک راجہ مسمی باپا راول پر مامون الرشید عباسی نے بائیس مرتبہ حملے کئے اور ہر مرتبہ باپا نے مامون کو شکست دے دے کر بھگا دیا۔ سنا گیا ہے کہ یہی سفید جھوٹ بعض اور کتابوں میں بھی نقل کیا گیا ہے جو داخل نصاب تھیں‘ یا اب مدارس میں پڑھائی جاتی ہیں۔ جن لوگوں نے لڑکپن میں یہ پڑھا ہے کہ مامون نے باپا سے بائیس مرتبہ شکست کھائی وہ اپنے دل میں مامون الرشید عباسی کے متعلق کیسا حقیر تصور رکھتے ہوں گے کہ ایک معمولی زمیندار کو زیر کرنے کے لیے اس نے اپنی پوری طاقت اور تمام عہد خلافت صرف کر دیا اور ناکام رہا۔ اوپر کے صفحات میں مامون الرشید عباسی کے عہد حکومت کا حال درج ہو چکا ہے‘ وہ خلیفہ ہونے سے پہلے جن جن مشاغل میں مصروف رہا اس کا بھی اجمالی ذکر آ چکا ہے‘ خراسان کی حکومت پر فائز ہو کر وہ مرو میں مقیم تھا کہ ہارون الرشید کا طوس میں انتقال ہو گیا‘ اس کے بعد قریباً چھ سال تک وہ مرو میں مقیم رہا اور اس نے مرو ۱؎ مؤلف نے یہ کتاب ۱۳۴۳ھ میں مکمل کی تھی یعنی آج سے ۸۱ سال قبل۔ اس لیے اسی تناظر میں اعداد و شمار کو مد نظر رکھنا چاہیے۔ سے باہر قدم نہیں نکالا۔ ہاں اس میں شک نہیں کہ اس کی فوجوں نے کابل و قندھار کے باغیوں کو زیر کیا اور اس ملک میں ۲۰۰ھ کے قریب عام طور پر اسلام شائع و مروج ہو گیا۔ اسی زمانے میں تبت کا بادشاہ مسلمان ہوا اور اس نے اپنے سونے چاندی کے بت خلیفہ مامون کے پاس مرو میں بھیج دئیے۔ سندھ اس کی حکومت میں شامل تھا۔ اور وہاں دربار خلافت سے عامل مقرر و مامور ہو کر آتے اور حکومت کرتے تھے۔ لیکن مامون خود کبھی اس طرف نہیں آیا۔ اس نے مرو سے روانہ ہو کر بغداد کا سفر اختیار کیا‘ اس سفر کے تفصیلی حالات تاریخوں میں درج ہیں۔ لیکن سندھ کی طرف یا ہندوستان پر حملہ آور ہونے کا ذکر نہیں۔ بغداد پہنچ کر عرصہ دراز تک وہ بغداد میں مقیم رہا‘ آخر ایام حیات میں وہ بغداد سے نکلا تو بلاد روم پر حملہ کرتا رہا۔ شام و مصر بھی گیا۔ اور ان مغربی بلاد کے سفر سے واپسی میں فوت ہوا۔ سمجھ میں نہیں آتا اور عقل کسی طرح تسلیم نہیں کر سکتی کہ مامون الرشید کی زندگی میں آخر وہ کون سا زمانہ ہے جس میں حملات ہند کو درج کیا جائے۔ ہاں یہ ممکن ہے کہ کسی گورنر سندھ نے کبھی کوئی دستہ فوج راجپوتانہ کے زمینداروں کی سرکوبی کے