تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
حاکم مقرر کیا‘ طاعون عمواس میں جب سیدنا ابوعبیدہ اور یزید بن ابی سفیان وغیرہ صحابی فوت ہوگئے تو فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے ان کو ان کے بھائی یزید کی ولایت دمشق کا والی مقرر فرمایا‘ علاقہ اردن اور دوسرے اضلاع بھی ان کی حکومت میں شامل رہے۔ فاروق اعظم رضی اللہ عنہ جب بیت المقدس تشریف لے گئے‘ تو سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے بھی ان کا استقبال کیا‘ اور فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے ہمرکاب رہے‘ فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پر اعتراض کیا کہ تم نے شاہانہ شان و شکوہ اختیار کی ہے‘ اور سنا ہے‘ کہ تم نے دربان بھی مقرر کئے ہیں؟ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ شام کی سرحدوں پر قیصر کی فوجوں کا اجتماع اور حملہ آوری کا ہمیشہ خطرہ رہتا ہے‘ قیصر کے جاسوس ملک شام میں پھیلے ہوئے ہیں‘ قیصر اور عیسائیوں کو مرعوب رکھنے کے لیے ظاہری شان و شوکت اور قیصر کے جاسوسوں سے محفوظ رہنے کے لیے دربانوں کو ضروری سمجھتا ہوں۔ فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے اس جواب کو معقول سمجھ کر پھر کوئی تعرض نہیں فرمایا۔ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے فاروق اعظم رضی اللہ عنہ سے بحری حملے کی اجازت طلب کی کہ قسطنطنیہ پر بحری حملہ کیا جائے اور بحر روم کے جزیروں کو فتح کر لیا جائے‘ لیکن فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے ان کو اس کی اجازت نہیں دی۔ فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے بعد جب سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ خلیفہ مقرر ہوئے‘ تو انہوں نے امیر معاویہ کو تمام ملک شام اور اس کے متعلقات کا حاکم بنا دیا‘ بحری فوج کے تیار کرنے کی بھی اجازت دے دی‘ ان کے اختیارات کو بھی وسیع کر دیا‘ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے تمام ملک شام پر قابض و متصرف ہو کر اس ملک میں حکومت اسلامیہ کو خوب مضبوط و مستحکم کیا اور ہمیشہ قیصر روم کو اپنی طرف سے خائف و مرعوب رکھ کر اس امر کا موقع نہیں دیا کہ عیسائی لوگ اسلامی ممالک پر حملہ آوری کی جرأت کر سکیں۔ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد مسلمانوں کے مابین جو کچھ ہوا‘ اس کا ذکر پہلی جلد میں آچکا ہے‘ ربیع الاول ۴۱ ہجری کے آخری عشرہ میں سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کے درمیان مصالحت ہوئی‘ اور تمام عالم اسلامی نے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کر کے ان کو خلیفہ وقت تسلیم کیا‘ اس وقت یعنی ربیع الاول ۴۱ ہجری تک امیر معاویہ بیس سال اور زندہ رہے‘ ان کی حکمرانی کا کل زمانہ چالیس سال ہے‘ اس چالیس سال کے نصف اول میں وہ ایک صوبہ دار یا گورنر تھے‘ اور نصف آخر میں خلیفہ نصف اول کے مجمل حالات اور اہم واقعات پہلی جلد میں بیان ہو چکے ہیں‘ اس جگہ ہم کو ان کے حالات بحیثیت خلیفہ یعنی نصف آخر کے واقعات بیان کرتے ہیں‘ اور ان کا نام بطور خلیفہ زیب عنوان کیا گیا ہے۔ فضائل و خصائل علم ‘ حلم اور حکمت: سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے ایک سو تریسٹھ حدیثیں مروی ہیں‘ جن کو بعد میں ابن عباس‘ ابن عمر رضی اللہ عنہ ‘ ابن زبیر رضی اللہ عنہ ‘ ابو الدرداء رضی اللہ عنہ وغیرہ صحابہ رضی اللہ عنہ اور ابن المسیب و حمید بن عبدالرحمن وغیرہ تابعین نے روایت کیا ہے‘ آپ رضی اللہ عنہ کے فضائل میں بھی بہت سی حدیثیں مشہور ہیں‘ ترمذی نے احادیث حسن کے ذیل میں لکھا ہے‘ کہ رسول اللہ صلی