تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
میں باقی نہ رہ سکے‘ لیکن بحر روم کے مشرقی حصے میں ان کی سیادت مسلم ہو گئی اور مشرقی مقبوضات سے مغربی نقصانات کی تلافی ہو گئی مگر مغربی علاقے جو ان کے قبضے سے نکلے‘ ان میں سے اکثر عیسائیوں کے قبضے میں پہنچے اور مشرقی علاقے انہوں نے مسلمانوں ہی سے چھینے‘ لہٰذا عبیدیوں کے مصر میں آنے سے عیسائیوں کو فائدہ اور مسلمانوں کو نقصان پہنچا۔ عبیدیوں نے خلافت کا دعویٰ بھی کیا‘ اور لوگوں سے جوان کے تحت حکومت تھے اپنی خلافت کی بیعت لی اور اپنے آپ کو خلیفہ کہلوایا‘ اس طرح دنیا میں خلافت کے تین سلسلے قائم ہوئے۔ پہلا اور سب سے بڑا سلسلہ تو وہی ہے جو سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے قائم ہو کر خاندان عثمانیہ کے آخری خلیفہ سلطان عبدالمجید خان تک قائم رہا‘ یہ سلسلہ سب سے بڑا ہے‘ اس کے پہلے حصے کا نام خلافت راشدہ‘ دوسرے حصے کا نام خلافت بنو امیہ‘ تیسرے حصے کا نام خلافت عباسیہ بغداد‘ چوتھے حصے کا خلافت عباسیہ مصر‘ پانچویں حصے کا نام خلافت عثمانیہ ہے‘ ہم اس طویل سلسلے کے چار حصے ختم کر چکے ہیں‘ اب پانچواں حصہ باقی ہے جو آئندہ جلدوں میں مذکور ہو گا۔ دوسرا سلسلہ خلافت وہ ہے جو اندلس میں عبدالرحمن ثالث کے زمانے سے شروع ہو کر اسی خاندان پر ختم ہو گیا‘ اس سلسلہ خلافت کو بھی علمائے اسلام نے خلافت حقہ تسلیم کیا ہے‘ اور خلفائے اندلس کو خلفائے اسلام تصور کرتے ہیں‘ یعنی ان کی فرماں برداری ان مسلمانوں کے لیے جو ان کی حدود سلطنت میں رہتے تھے‘ ضروری اور ان کی بغاوت معصیت تھی۔ تیسرا سلسلہ جو عبیدیوں نے جاری کیا تھا‘ اس کو علماء اسلام نے سلسلہ خلافت تسلیم نہیں کیا‘ نہ ان کو خلیفہ مانتے اور نہ اسلامی نقطہ نظر سے ان کو مستحق تکریم سمجھتے ہیں‘ ان لوگوں نے شرک و بدعت کو رواج دیا‘ شعائر اسلام کی بے حرمتی کی اور انواع و اقسام کی بد اعمالیوں کے مرتکب ہوئے۔ بہرحال عبیدیوں کی حکومت ۵۶۷ھ تک قائم رہی‘ اس کے بعد سلطان صلاح الدین ایوبی نے اس سلطنت کا خاتمہ کر کے مصر میں ایوبی سلطنت قائم کی اور خلافت عباسیہ کا خطبہ مصر میں پھر جاری ہوا۔ دولت بنو حمدان (موصل و جزیرہ و شام!) ابو الٰہیجا عبداللہ بن حمدان بن حمدون بن حارث بن لقمان بن اسد بن حزم نے ۲۸۹ھ میں صوبہ موصل کے اندر خود مختارانہ حکومت کی بنیاد ڈالی اور قریباً سو برس تک بنو حمدان نے موصل و جزیرہ و شام میں حکومت کی‘ ان لوگوں نے خلفاء عباسیہ کا خطبہ اپنے حدود مملکت میں جاری رکھا‘ ان میں سیف الدولہ اور ناصر الدولہ بہت نامور اور زبردست حکمراں گذرے ہیں‘ سیف الدولہ شام میں اور ناصر الدولہ موصل میں حکومت کرتا تھا‘ بنو اخشیدیہ سے شام کا اکثر حصہ انہوں نے چھین لیا تھا‘ جزیرے پر بھی ان کا تسلط ہو گیا تھا‘ بنو بویہ یعنی دیلمیوں سے بھی ان کی معرکہ آرائیاں ہوئیں اور ان معرکوں میں انہوں نے ہمسرانہ مقابلہ‘ بنی بویہ کا کیا‘ کبھی کبھی خلیفہ بغداد پر بھی ان کا تسلط قائم ہو جاتا تھا۔ ان کے عہد حکومت میں رومیوں پر فوج کشی اور رومیوں کی فوج کشی کی مدافعت کا تعلق دربار خلافت سے بالکل منقطع ہو گیا تھا‘ بنو حمدان ہی رومیوں پر فوج کشی کرتے