تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
بھی آٹھ کا عدد موجود ہے۔ معتصم خلفاء عباسیہ میں آٹھواں خلیفہ ہے۔ اس نے ۴۸ سال کی عمر پائی۔ آٹھ لڑکے اور آٹھ لڑکیاں چھوڑیں‘ اس کا طالع پیدائش برج عقرب تھا جو آٹھواں برج ہے۔ اس نے آٹھ برس آٹھ مہینے اور آٹھ دن خلافت کی۔ اس نے آٹھ قصر تعمیر کرائے۔ آٹھ بڑی بڑی لڑائیاں فتح کیں۔ آٹھ بادشاہ اس کے سامنے دربار میں حاضر کیے گئے۔ افشین و عجیف و عباس و بابک و مازیار وغیرہ آٹھ بڑے بڑے دشمنوں کو اس نے قتل کرایا۔ آٹھ لاکھ دینار‘ آٹھ لاکھ درہم‘ آٹھ ہزار گھوڑے‘ آٹھ ہزار غلام‘ آٹھ ہزار لونڈیاں اس نے ترکہ میں چھوڑیں۔ ماہ ربیع الاول کے آٹھ دن باقی تھے کہ فوت ہوا۔ مسئلہ خلق قرآن۱؎ کا خبط اس کو بھی مثل مامون الرشید کے تھا اور اس غیر ضروری مسئلہ کی طرف خصوصیت کے ساتھ متوجہ رہنے سے اکثر علماء کو اس کے ہاتھ سے تکلیفیں پہنچیں‘ یہ عیب اس میں نہ ہوتا تو اس کو خاندان عباسیہ کا سب سے بڑا خلیفہ کہا جا سکتا تھا۔ اس کے زمانہ میں خلافت عباسیہ کی شوکت اپنے معراج کمال کو پہنچ گئی تھی۔ جس کے بعد اس میں زوال و اضمحلال کے علامات نمایاں ہوتے گئے۔ واثق باللہ واثق باللہ بن معتصم باللہ بن ہارون الرشید بن مہدی بن منصور عباسی کی کنیت ابو جعفر یا ابوالقاسم تھی۔ اس کا اصل نام ہارون تھا۔ یہ مکہ کے راستے میں قراطیس نامی ام ولد کے پیٹ سے ۲۰ شعبان ۱۹۶ھ میں پیدا ہوا تھا۔ اس کو اس کے باپ معتصم باللہ نے اپنا ولی عہد بنایا تھا۔ معتصم کی وفات کے بعد تخت خلافت پر بیٹھا۔ یہ نہایت خوب صورت گوری چٹی رنگت کا آدمی تھا۔ ڈاڑھی گھنی اور خوب صورت تھی۔ اس کی رنگت میں سفیدی کے ساتھ زردی بھی جھلکتی تھی۔ آنکھوں کی سفیدی میں سیاہ تل بھی نمودار تھا۔ یہ بہت بڑا شاعر اور ادیب تھا۔ عربی ادب میں وہ مامون کا ہم پلہ بلکہ اس سے بھی فائق تھا۔ مگر فلسفہ اور علوم حکمیہ میں مامون سے کمتر تھا۔ اس نے مامون الرشید کی علمی مجلسیں دیکھی تھیں۔ اس کو علم و فضل کا شوق تھا‘ اسی لیے اس کو مامون صغیر یا مامون ثانی کہتے تھے۔ ۱؎ ۱۹۸ھ میں مامون بن ہارون الرشید عباسی نے خلافت کی زمام کار سنبھالی۔ معتزلہ کا فرقہ اٹھتا ہے اور دیگر بدعات کی اشاعت کے ساتھ ساتھ قرآن کریم کے مخلوق ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور بڑی تیزی سے عوام کو بھی اپنے ساتھ ملا لیتے ہیں۔ مامون بھی معتزلہ کے ساتھ ہے۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ تعالی جب گمراہی کی تیزی سے بڑھتی ہوئی لہر کو دیکھتے ہیں تو پوری قوت کے ساتھ باطل قوتوں کا مقابلہ کرنے کے لیے میدان عمل میں نکلتے ہیں۔ اس مسئلہ میں حق و باطل کی یہ کشمکش کئی سالوں تک جاری رہتی ہے۔ چنانچہ مامون‘ پھر معتصم‘ واثق‘ متوکل ان چار خلفاء کے عہد میں یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ تعالی پر چاروں خلفاء کے ادوار میں تعذیب و تشدد کا ایک طوفان برپا رہتا ہے۔ لیکن بامشقت قید و بند کے مصائب اور تضحیک و تشنیع کے سلسلے میں بھی اللہ کی توفیق سے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ تعالی کے پائے استقامت کو متزلزل نہ کر سکے اور وہ فاتح و سرخرو ہو کر تعذیب خانہ سے باہر تشریف لائے۔ یوں باطل کو شکست فاش ہوئی اور حق غالب آیا‘ فللہ الحمد! تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو‘ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ تعالی کا دور ابتلا مؤلفہ ڈاکٹر محمد نفش مصری‘ مترجم الشیخ محمد صادق خلیل۔ واثق کو عربی اشعار اس قدر یاد تھے کہ خلفاء عباسیہ میں کسی کو اتنے اشعار یاد نہ تھے۔ اپنے باپ کی طرح کھانے پینے کا اس کو بھی بہت شوق تھا۔ بہت پر خور خوش خور تھا۔ شاعروں اور ادیبوں کو بڑے بڑے انعام وصلے دیتا تھا۔ اہل علم کی قدر کرتا تھا اور ان کے ساتھ تعظیم و تکریم کا برتائو ضروری سمجھتا تھا۔ مگر خلق قرآن کے مسئلہ کا خبط اپنے باپ سے وراثت میں پایا تھا۔ اور اس معاملہ میں یہاں تک غلو اختیار کیا تھا