تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
عبدالملک بن الحکم بن ابی العاص کو ایک لشکر دے کر وادی القریٰ کی طرف روانہ کیا‘ یہ گویا عبدالملک بن مروان کی طرف سے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنھما پر پہلی چڑھائی تھی۔ اس چڑھائی کا حال سن کر مختار نے دوسرا خط سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنھما کو لکھا کہ اگر آپ چاہیں تو میں آپ کی مدد کے لیے فوج کوفہ سے۔۔۔۔۔۔ روانہ کروں‘ سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنھما نے لکھا‘ کہ اگر تم میرے فرماں بردار و مطیع ہونے کی حیثیت سے فوج روانہ کرتے ہو تو فوراً ایک فوج وادی القریٰ کی طرف بھیج دو‘ مختار نے شرجیل بن دوس ہمدانی کو تین ہزار کی جمعیت سے یہ حکم دے کر روانہ کیا کہ سیدھے اول مدینہ میں جا کر قیام کرو‘ پھر وہاں سے حالات لکھ کر مجھ کو بھیجو‘ اس کے بعد جو حکم بھیجوں اس کی تعمیل کرو‘ مدعا اس سے مختار کا یہ تھا‘ کہ میں اس بہانہ سے مدینہ میں فوج بھیج کر محمد بن حنفیہ کی خوشنودی اس طرح حاصل کر سکوں گا‘ کہ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنھما کو بھی کوئی اعتراض نہ ہو گا اور میرا اثر شیعان علی میں ترقی کر سکے گا۔ سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنھما مختار کی ان چالاکیوں کو سمجھتے تھے‘ انہوں نے مذکورہ جواب مختار کے پاس بھیج کر فوراً عباس بن سہل بن سعد کو دو ہزار آدمیوں کے ساتھ متعین کیا کہ اگر کوفہ سے مختار کوئی لشکر بھیجے‘ تواول یہ معلوم کرو‘ کہ وہ محکوم ہو کر آیا ہے یا خود مختار ہے‘ اگر محکوم ہو تو اس سے کام لو‘ اور اگر وہ محکوم ہو کر نہیں آیا تو اس کو واپس کر دو‘ واپس ہونے سے انکار کرے تو اس کا مقابلہ کرو‘ مقام قیم میں عباس وشرجیل کی ملاقات ہوئی‘ عباس نے کہا تم لوگ مقام وادی القریٰ کی طرف ہمارے ساتھ دشمن کے مقابلہ کو چلو‘ شرجیل نے کہا‘ ہم کو تو سیدھے مدینے جانے کا حکم ہے‘ وہاں ہم دوسرے حکم کا انتظار کریں گے‘ تب کہیں جا سکیں گے۔ عباس نے اول ان کوفیوں کو کھانے پینے کا سامان دے کر تواضع کی‘ پھر تعمیل حکم سے انکار کرنے کی پاداش میں حملہ کر کے اپنے دو ہزار آدمیوں سے ان تین ہزار کو مجبور کر دیا اور ستر آدمی قتل کر کے کوفہ کی طرف زبردستی لوٹا دیا‘ مختار نے اس سے بھی فائدہ اٹھایا اور محمد بن حنفیہ کو خط لکھ کر عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنھما کی شکایت کی کہ انہوں نے میری فوج کو آپ تک نہ پہنچنے دیا جو آپ کی حفاظت کے لیے میں نے روانہ کی تھی‘ اب مناسب یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ اپنا ایک معتمد خاص بھیج دیجئے‘ تاکہ میں اس کے ساتھ ایک زبردست فوج روانہ کر دوں اور لوگوں کو بھی آپ کے فرستادہ کی زیارت سے اطمینان حاصل ہو۔ محمد بن حنفیہ رضی اللہ عنہ نے مصلحتاً جواب لکھا کہ میں تمہاری حق پسندی سے واقف ہوں‘ تم مجھ کو گوشہ عافیت میں بیٹھا رہنے دو‘ اور مخلوق اللہ تعالیٰ کی خون ریزی سے پرہیز کرو‘ میں اگر حکومت و امارت کا خواہاں ہوتا‘ تو تم سے زیادہ لوگوں کو اپنے گرد جمع کر سکتا تھا‘ لیکن میں نے اپنے تمام دوستوں اور ہواخواہوں کو معطل کر رکھا ہے‘ اللہ تعالیٰ خود ہی جو چاہے گا فیصلہ کرے گا۔ عبیداللہ بن زیاد کا قتل اوپر ذکر ہو چکا ہے‘ بابل کے میدان میں بروز عیدالاضحیٰ ۶۶ھ کوفیوں کے مقابلہ میں شامیوں کو شکست ہوئی تھی‘ مگر کوفی سپہ سالار ابن زیاد کے آنے کی خبر سن کر پیچھے ہٹ آیا تھا‘ اس خبر کو سن کر مختار نے اپنے سپہ سالار اعظم ابراہیم بن مالک بن اشتر کو سات ہزار فوج کے ساتھ روانہ کیا تھا‘ لیکن راستے ہی سے ابراہیم کو کوفہ کی