تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
عنھم وغیرہ نے بیعت نہیں کی۔ ان لوگوں کو امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان کے حال پر چھوڑ دیا اور زیادہ مجبور کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ زیاد بن ابی سفیان کی موت سنہ ۵۳ھ میں زیاد بن ابی سفیان مرض طاعون سے فوت ہوئے‘ اور سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو ان کے فوت ہونے کا سخت ملال ہوا‘ زیاد نے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے فرمائش کی تھی کہ مجھ کو عراق و فارس کے علاوہ حجاز و عرب کی حکومت عطا کی جائے‘ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے اس فرمائش اور خواہش کو منظور کر لیا‘ لیکن اہل حجاز اس خبر کو سن کر خائف ہوئے‘ اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے پاس گئے کہ زیاد کی حکومت سے کس طرح محفوظ رہیں‘ انہوں نے قبلہ رو ہو کر دعا کی۔ سب نے آمین کہی۔ اس دعا کا نتیجہ یہ ہوا کہ زیاد کی انگلی میں ایک دانہ نکلا‘ اور اسی میں وہ فوت ہوئے‘ زیاد نے کوفہ کے اندر ماہ رمضان المبارک میں وفات پائی ۔ زیاد نے کوفہ کی حکومت اپنی طرف سے عبداللہ بن خالد بن اسید کو سپرد کر رکھی تھی۔ زیاد کی وفات کے وقت اس کے بیٹے عبیداللہ بن زیاد کی عمر ۲۵ سال کی تھی‘ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تمہارے باپ نے کس کس کو کہاں کہاں کی حکومت عطا کی؟ عبیداللہ نے کہا کہ سمرہ بن جندب کو بصرہ کی حکومت‘ اور عبیداللہ بن خالد بن اسید کو کوفہ کی۔ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا تمہیں کہاں کی حکومت دی تھی؟ عبیداللہ نے کہا مجھ کو کہیں کی حکومت سپرد نہیں کی۔ معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جب تمہارے باپ نے تم کو کہیں کی حکومت نہیں دی تو پھر میں بھی تم کو کہیں کا حاکم مقرر نہ کروں گا۔ عبیداللہ نے کہا میرے لیے اس سے بڑھ کر اور کیا ذلت و بدنامی ہو گی کہ میرے باپ نے بھی مجھ کو کہیں کا حاکم مقرر نہیں فرمایا‘ اور اب آپ میرے چچا ہیں‘ آپ بھی مجھ کو کوئی سرداری عطا نہیں فرماتے۔ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے کچھ سوچ کر اور عبیداللہ کو قابل پا کر بصرہ و خراسان و فارس کا اعلیٰ حاکم مقرر فرما دیا۔ سعید بن عثمان رضی اللہ عنہ بن عفان نے یزید کی ولی عہدی کی بیعت کر لی تھی‘ جب ان کو معلوم ہوا کہ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ ‘ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ ‘ حسین بن علی رضی اللہ عنہ وغیرہ نے بیعت نہیں کی‘ تو انہوں نے کہا کہ میرا باپ ان لوگوں کے باپ سے کم نہ تھا‘ میں نے ناحق یزید کے لیے بیعت کی‘ پھر انہوں نے امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ میرے باپ نے آپ کے ساتھ کوئی برائی نہیں کی تھی‘ بتائیے آپ نے مجھ پر کیا احسان کیا؟ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے خراسان کا صوبہ عبیداللہ بن زیاد سے نکال کر سعید بن عثمان رضی اللہ عنہ کو دے دیا اور مہلب بن ابی صفر کو سعید کا کمکی اور سپہ سالار مقرر کیا‘ زیاد کے بعد انہوں نے مروان بن و سعید بن عاص کو پھر مدینہ و مکہ کی حکومت پر بھیج دیا۔ زیاد بن ابی سفیان کے فوت ہوتے ہی خارجیوں نے پھر سر اٹھایا‘ اور عبیداللہ بن زیاد کو بصرہ کا حاکم مقرر ہوتے ہی اول خارجیوں سے معرکہ آراء ہونا پڑا۔ خارجیوں کی جماعتوں نے متواتر خروج شروع کر دیا‘ اور امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات تک عبیداللہ بن زیاد خارجیوں کی سرکوبی میں مصروف رہا۔ سیدنا ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ کی وفات