تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
نے کہا کہ میں نے اپنے خاندان میں کسی کو ان دونوں حضرات کی نسبت برا کہتے نہیں سنا‘ کوفیوں نے کہا کہ جب خلافت کے اصل حق دار آپ ہی کے خاندان والے تھے اور ان دونوں کے خلافت پر قابض ہوجانے سے وہ ناراض نہ ہوئے تو اب اگر بنوامیہ نے بجائے آپ کے خلافت پر قبضہ کر لیا ہے تو آپ ان کو کیوں برا کہتے اور ان سے کیوں لڑتے ہیں‘ یہ کہہ کر بیعت فسخ کر کے چل دیئے اور زید بن علی نے ان کو رافضی کا خطاب دیا۔ آخر صرف دو سو بیس آدمی زید بن علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ رہ گئے‘ ان مٹھی بھر آدمیوں سے زید بن علی رضی اللہ عنہ نے یوسف ثقفی کی کئی ہزار فوج کا مقابلہ کیا‘ غرض کوفہ گلیوں میں وہ ایک ایک شخص کے گھر پہنچ کر آواز دیتے اور عہد بیعت یاد دلا کر اپنی حمایت کے لیے بلاتے تھے مگر کوئی نہیں نکلتا تھا‘ آخر کئی مرتبہ گورنر عراق کی فوجوں کو شکست دینے کے بعد وہ فوت ہوئے‘ ان کی پیشانی میں ایک تیر آکر لگا جس کے صدمے سے جانبر نہ ہوسکے یوسف بن عمر ثقفی نے ان کا سرکٹواکر ہشام بن عبدالملک کے پاس دمشق میں بھجوا دیا‘ زید بن علی رضی اللہ عنہ کے صاحب زادے یحییٰ بن زید اپنے باپ کے فوت ہونے کے بعد اول نینوا کی طرف جا کر روپوش رہے پھر موقع پاکر خراسان کی طرف چلے گئے۔ زید بن علی کی یہ کوشش عجلت اور ناعاقبت اندیشی کے سبب ناکام رہی لیکن اس سے عباسیوں نے فائدہ اٹھانے میں کمی نہیں کی‘ ان کو زیادہ احتیاط برتنے اور زیادہ دور اندیشی سے کام لینے کی ترغیب ہوئی اور وہ اس بات کا بھی صحیح اندازہ کر سکے کہ ملک میں بنو امیہ کے اثر واقتدار کی اب کیا کیفیت ہے‘ زید بن علی رضی اللہ عنہ کی وفات نے اور بھی زیادہ لوگوں کی ہمدردی کو بنوہاشم کی طرف مائل کر دیا‘ کیونکہ ہشام بن عبدالملک نے زید بن علی رضی اللہ عنہ کٹے ہوئے سر کو دمشق کے دروازنے پر لٹکا دیا اور یوسف ثقفی نے زید بن علی کے ہمرائیوں کی لاشوں کو کوفہ میں سولی پر لٹکا دیا جو برسوں وہاں لٹکتی اور لوگوں کو بنو امیہ سے متنفر اور بنو ہاشم کا ہمدرد بناتی رہیں۔ عباسیوں کی سازش ابوہاشم عبداللہ بن محمد بن حنفیہ بن علی بن ابی طالب کی سلیمان بن عبدالملک وغیرہ خلفائے بنوامیہ بہت عزت ومدارات کیا کرتے تھے لیکن بنوامیہ سے ان کو بھی ہاشمی ہونے کے سبب تعصب تھا اور وہ دل سے بنوامیہ کی حکومت کے مٹانے اور بنوہاشم کو برسر اقتدار لانے کے خواہاں تھے‘ ان کی کوشش صرف یہیں تک محدود تھی کہ وہ اپنے معتقدوں اور دوستوں میں جس کو اہل پاتے اپنے خیالات سے آگاہ فرما دیتے تھے اور اس قسم کے لوگ ان کو تھوڑے نہیں بہت دستیاب ہوگئے تھے جو عراق میں بھی تھے اور خراسان وحجاز میں بھی رہتے تھے۔ محمد بن علی بن عبداللہ بن عباس بن عبدالمطلب بھی بنوامیہ کی حکومت کے مٹانے اور بنوعباس کی خلافت قائم کرنے کی فکر میں مصروف تھے‘ ایک مرتبہ سلیمان بن عبدالملک کے عہد خلافت میں ابوہاشم عبداللہ بن محمد رحمہ اللہ تعالی سلیمان بن عبدالملک کے پاس دمشق گئے‘ وہاں سے واپسی میں وہ مقام حمیمہ علاقہ بلقاء میں محمد بن علی بن عبداللہ بن عباس کے پاس ٹھہرے‘ اتفاقاً وہ وہاں بیمار ہو کر فوت ہو گئے‘ فوت ہوتے وقت انہوں نے محمد بن علی بن عبداللہ کو وصیت کی کہ تم خلافت اسلامیہ کے حاصل کرنے