تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
۱۸۶ھ میں جیسا کہ اوپر ذکر ہو چکا ہے علی بن عیسیٰ خراسان کی تمام بغاوتوں پر غالب آ کر وہاں امن و سکون قائم کر سکا اور وہب بن عبداللہ نسائی مارا گیا۔ علی بن عیسیٰ کو زیادہ دنوں چین سے بیٹھنا نصیب نہیں ہوا۔ خراسان میں اس کے خلاف ایک اور طوفان برپا ہو گیا۔ اہل خراسان نے علی بن عیسیٰ کی شکایت میں مسلسل دربار خلافت میں عرضیاں بھیجنی شروع کیں۔ یحییٰ بن خالد علی بن عیسیٰ کی گورنری خراسان سے خوش نہ تھا۔ چنانچہ یحییٰ کے دونوں چھوٹے بیٹوں موسیٰ و محمد نے جن کو اہل خراسان میں کافی رسوخ حاصل تھا وہب بن عبداللہ اور حمزہ خارجی کو بغاوت پر اکسا دیا تھا‘ اور انھیں کی درپردہ کوششوں کا نتیجہ تھا کہ خراسان میں مسلسل کئی برس تک بد امنی و فساد کا بازار گرم رہا۔ اس عرصہ میں خلیفہ ہارون الرشید کو یحییٰ و جعفر کی طرف سے کئی مرتبہ توجہ دلائی گئی کہ علی بن عیسیٰ کو خراسان سے معزول کر دیا جائے۔ مگر ہارون الرشید نے کوئی التفات نہیں کیا۔ اب جب کہ تیر و شمشیر کے ہنگامے خراسان میں فرو ہو گئے تو کاغذ کے گھوڑے دوڑنے شروع ہوئے۔ یعنی برمکیوں کی تحریک کا نتیجہ تھا کہ خراسانیوں نے علی بن عیسیٰ کی شکایتوں میں عرضی پر عرضی بھیجنا شروع کر دی۔ جب ان شکایتی عرضیوں کا شمار حد سے متجاوز ہونے لگا اور یہ شکایتیں بھی آنے لگیں کہ علی بن عیسیٰ نہ صرف ظلم و تشدد میں حد سے گزر گیا ہے بلکہ وہ تخت خلافت کے الٹ دینے کی تدابیر میں مصروف ہے تو ہارون نے مجبوراً خود بغداد سے کوچ کیا اور مقام رے میں پہنچ کر قیام کیا‘ علی بن عیسیٰ خلیفہ کے آنے کا حال سن کر معہ تحف و ہدایا مرو سے چل کر رے میں آیا اور خلیفہ ہارون الرشید کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنی فرماں برداری اور اخلاص کا ثبوت پیش کیا۔ ہارون نے خوش ہو کر اس کو خراسان کی گورنری پر مامور رکھا اور رے و طبرستان و نہاوند و قومس دہمدان کی ولایتوں کو بھی اس کی حکومت میں شامل کر دیا۔ موتمن کی ولی عہدی اسی سال یعنی ۱۸۶ھ میں خلیفہ ہارون الرشید نے اپنے تیسرے بیٹے قاسم کو بھی ولی عہد بنایا یعنی لوگوں سے اس بات کی بیعت لی کہ مامون کے بعد قاسم تخت خلافت کا مالک ہو گا۔ اسی موقعہ پر قاسم کو موتمن کا خطاب دیا۔ لیکن موتمن کو ولی عہد سوم بناتے ہوئے بیعت میں یہ شرط رکھ دی کہ اگر موتمن لائق ہو تو مامون کا جانشین بنے گا‘ ورنہ مامون کو یہ اختیار حاصل ہو گا کہ وہ اس کو معزول کر کے کسی دوسرے کو اپنا ولی عہد بنائے۔ ولی عہد اول یعنی امین کو عراق‘ شام اور عرب کے ملکوں کی حکومت عطا کی۔ پھر امین سے ایک عہد نامہ لکھوایا جس کا مضمون یہ تھا کہ:۔ ’’میں مامون کے ساتھ ایفائے عہد کروں گا۔ اسی طرح مامون سے ایک عہد نامہ لکھوایا جس کا مضمون یہ تھا کہ میں امین کے ساتھ ایفائے وعدہ کروں گا۔ ان عہد ناموں پر اکابر علماء‘ مشاہیر‘ مشائخ‘ سردارن لشکر‘ اراکین سلطنت‘ بزرگان مدینہ اور بزرگان مکہ کے دستخط کرا کر خانۂ کعبہ میں آویزاں کرا دیا۔ جو جو ملک جس جس بیٹے کو دیا تھا اسی پر ان کو قناعت کرنے اور کسی دوسرے بھائی کا ملک نہ لینے کا بھی اقرار لیا گیا تھا۔ صرف خلافت میں ترتیب رکھی تھی۔ یعنی اول امین خلیفۃ المسلمین ہو گا اور مامون اس کی فرماں برداری کا اقرار کرے گا۔ لیکن امین کو یہ حق حاصل نہ ہو گا کہ وہ مامون کو ان ملکوں کی حکومت سے معزول کر سکے جن کو ہارون نے مامون کی حکومت کے