تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
خلیفہ متقی آخر ۳۳۲ھ تک بنی حمدان کے پاس رہا‘ اس عرصہ میں خلیفہ اور بنی حمدان کے درمیان کچھ کدورت پیدا ہوئی‘ خلیفہ نے ایک طرف بغداد میں اور دوسری طرف مصر میں اخشید بن محمد بن طفج کے پاس خطوط بھیجے‘ ۱۵ محرم ۳۳۳ھ کو اخشید بمقام رقہ خود خلیفہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ آپ مصر میں تشریف لے چلیں اور وہیں قیام کریں۔ وزیر نے بھی اس رائے کو پسند کیا اور مصر کے دارالسلطنت بنانے کے منافع بیان کیے‘ مگر خلیفہ نے اس بات کو پسند نہ کیا‘ اتنے میں بغداد سے توزون کا خط آ گیا جس میں خلیفہ اور اس کے وزیر ابن شیرزاد کو امن دی گئی تھی‘ خلیفہ نے اس خط کو پڑھ کر خوشی کا اظہار کیا اور اخشید کو چھوڑ کر آخر محرم ۳۳۳ھ کو بغداد کی جانب روانہ ہو گیا۔ توزون نے مقام سندیہ میں استقبال کیا اور اپنے خیمہ میں ٹھہرایا‘ اگلے دن خلیفہ کی آنکھوں میں گرم سلائیاں پھروا کر اندھا کر دیا‘ اس کے بعد ابو القاسم عبداللہ بن خلیفہ مکتفی باللہ کو بلا کر اس کے ہاتھ پر اراکین دولت نے بیعت کی اور مکتفی باللہ کے لقب سے ملقب کیا‘ سب سے آخر میں معزول خلیفہ متقی کو دربار میں پیش کیا گیا‘ اس نے بھی خلیفہ مستکفی کی بیعت کی متقی کو جزیرہ میں قید کر دیا گیا‘ پچیس برس اسی مصیبت میں گرفتار رہ کر ۳۵۷ھ میں فوت ہوا‘ جب قاہر باللہ کو متقی کے اندھا ہونے کی خبر پہنچی تو بہت خوش ہوا اور کہنے لگا کہ اب ہم دو تو اندھے ہو گئے تیسرے کی کسر ہے‘ عجیب اتفاق تھا کہ چند ہی روز مستکفی کا بھی یہی چشر ہوا۔ مستکفی باللہ ابو القاسم عبداللہ مستکفی باللہ ایک ام ولد موسومہ املح الناس کے بطن سے پیدا ہوا تھا۔ صفر ۳۳۳ھ کو بعمر اکتالیس سال تخت نشین ہوا‘ ابو القاسم فضل بن مقتدر باللہ بھی دعویدار خلافت تھا‘ وہ روپوش ہو گیا‘ مستکفی نے اس کو بہت تلاش کرایا مگر وہ ہاتھ نہ آیا اور مستکفی کے عہد میں روپوش ہی رہا‘ مستکفی جب اس کی جستجو میں کامیاب نہ ہوا تو اس کا مکان منہدم کرا دیا۔ خلیفہ مستکفی کے تخت نشین ہوتے ہی توزون فوت ہو گیا‘ مستکفی نے ابو جعفر ابن شیرزاد کو امیر الامراء کا خطاب دیا‘ ابن شیرزاد نے تمام انتظامات و اختیارات اپنے ہاتھ میں لے کر بے دریغ روپیہ خرچ کرنا شروع کیا۔ خزانہ خالی ہو گیا‘ تمام انتظام درہم برہم ہو گیا چند ہی روز کے بعد بغداد میں چوریوں اور ڈاکہ زینوں کی کثرت نے یہاں تک نوبت پہنچا دی کہ لوگ شہر چھوڑ چھوڑ کر جلا وطنی اختیار کرنے لگے۔ انتباہ ! سلطنت اسلامیہ کا رقبہ اور وسعت مملکت عہد بنو امیہ تک برابر ترقی پذیر رہا‘ حکومت اسلامیہ کا ایک ہی مرکز تھا اور دمشق کے دربار خلافت سے جو حکم جاری رہتا تھا اس کی تعمیل اندلس اور مراکش کے مغربی ساحل سے چین و ترکستان تک یکساں ہوتی تھی‘ خلافت اسلامیہ جب بنو عباس کے قبضہ میں آئی تو چند ہی روز کے بعد اندلس میں بنو امیہ کی ایک خود مختار سلطنت الگ قائم ہو گئی اور مسلمانوں کی سلطنت کے بجائے ایک کے دو مرکز ہو گئے۔ پھر چند روز کے بعد مراکش میں ایک تیسرا مرکز حکومت قائم ہوا‘ اس کے بعد افریقہ و مصر میں ایک اور حکومت قائم ہوئی۔ اب جس زمانہ