تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
نقصان ہو گی‘ مناسب یہ ہے کہ آپ عمر بن عبدالعزیز کو حجاز کی حکومت سے معزول کر دیں۔ ولید نے ماہ شعبان ۹۳ھ میں عمر بن عبدالعزیز کو حجاز کی حکومت سے معزول کر کے ان کی جگہ خالد بن عبداللہ کو مکہ معظمہ کا اور عثمان بن حبان کو مدینہ کا حاکم مقرر کر دیا۔ خالد نے مکہ میں جاتے ہی کل اہل عراق کو نکال باہر کیا اور ان لوگوں کو بھی دھمکایا‘ جنہوں نے اپنے مکانات اہل عراق کو کرایہ پر دے رکھے تھے‘ جو لوگ حجاج کے ظلم و ستم سے بچنے کے لیے مکہ معظمہ میں آئے تھے ان ہی میں سعید بن جبیر بھی تھے‘ سعید بن جبیر کی خطا یہ تھی کہ وہ عبدالرحمان بن اشعث کے ہم آہنگ ہو گئے تھے اور حجاج کے نگاہ میں یہ خطا کوئی معمولی خطا نہ تھی‘ خالد نے ان کو گرفتار کر کے حجاج کے پاس بھیج دیا‘ حجاج نے ان کوقتل کر دیا۔ سعید بن جبیر بالکل بے گناہ مقتول ہوئے اور اس قسم کے یہی ایک مقتول نہ تھے بلکہ بہت سے بزرگ اور نیک آدمیوں کو حجاج نے ظالمانہ قتل کیا۔ ولید بن عبدالملک کے بعد سلیمان بن عبدالملک تخت خلافت کا آرزو مند تھا‘ کیوں کہ عبدالملک نے ولید کے بعد سلیمان کو ولی عہد بنایاتھا اور اسی پر لوگوں سے بیعت لی گئی تھی‘ ولید نے یہ چاہا‘ کہ میں سلیمان اپنے بھائی کو محروم کر کے اپنے بیٹے عبدالعزیز کو ولی عہد بنائوں‘ اس خواہش اور ارادہ کا حال ولید نے جدا جدا اپنے سرداروں کے سامنے بیان کئے‘ تو حجاج اور قتیبہ نے تو پسند کیا‘ لیکن اوروں نے ولید کو ڈرایا‘ اور کہا‘ کہ مسلمانوں میں فتنہ برپا ہو جانے کا سخت اندیشہ ہے۔ اسی سال ۹۵ھ میں بہ ماہ شوال بیس برس عراق کی حکومت کرنے کے بعد حجاج نے وفات پائی‘ اور مرتے وقت اپنے بیٹے عبداللہ بن حجاج کو عراق کا گورنر مقرر کیا‘ ولید بن عبدالملک نے حجاج کے تمام عاملوں کو ان کے عہدوں پر بدستور قائم رکھا۔ موسیٰ بن نصیر رحمہ اللہ تعالی جس طرح حجاج مشرقی ممالک کا سب سے بڑا حاکم تھا اسی طرح مغربی ممالک کا حاکم ولید بن عبدالملک کے عہدمیں موسیٰ بن نصیرتھا۔ جس کا جائے قیام مقام قیروان تھا‘ شمالی افریقہ کے اس سب سے بڑے حاکم کے پاس اندلس کے بعض لوگ آئے‘ اور اپنے بادشاہ لذریق (راڈرک) کے ظلم و ستم کی شکایت کر کے التجا کی کہ آپ اندلس (اسپین) پر چڑھائی کر کے مراقش کی طرح اس کو بھی اپنی حکومت میں شامل کر لیں۔ موسیٰ نے اہل اندلس کی اس درخواست پر چند روز غور کیا‘ اس کے بعد اپنے ایک غلام کو چار کشتیوں میں چار سو سپاہیوں کے ساتھ ساحل اندلس کی طرف روانہ کیا کہ وہاں کے حالات سے آگاہی حاصل ہو‘ اور دوسری طرف خلیفہ ولید سے اندلس پر چڑھائی کرنے کی اجازت طلب کی‘ خلیفہ نے چڑھائی کی اجازت عطا کر دی‘ ادھر چار سو سپاہی بھی سالماً غانماً واپس آئے۔ ۹۱ھ یا ۹۲ھ میں موسیٰ نے اپنے دوسرے آزاد کردہ غلام طارق بن زیاد کو سات ہزار فوج دے کر اندلس پر حملہ کرنے کا حکم دیا‘ طارق اس زمانہ میں موسیٰ بن نصیر کی طرف سے طنجہ (واقع مراکو) کا حاکم تھا‘ وہ اپنے سات ہزار ہمرائیوں کے ساتھ کشتیوں پر سوار ہو کر اور بارہ میل کی چوڑی آبنائے جبل الطارق کو عبور کر کے ساحل اندلس پر اترا‘ اور شمال کی جانب متوجہ ہوا‘ علاقہ شذونہ میں اسپین کا بادشاہ لذریق ایک لاکھ جرار فوج کے ساتھ طارق کے مقابلہ پر آیا۔ آٹھ روز تک بڑے زور شور کی لڑائی رہی‘ آخر