تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کو دھوکہ دے کر اور اپنی طرف سے غافل رکھ کر حکومت و سلطنت حاصل کرنا چاہتا ہے‘ انہوں نے مختار کی اطاعت کا امتحان لینے کی غرض سے عمر بن عبدالرحمن بن حرث بن ہشام مخزومی کو کوفہ کی گورنری کا پروانہ دے کر کوفہ کی طرف روانہ کیا‘ مختار کو جب یہ بات معلوم ہوئی تو اس نے زائد بن قدامہ کو پانچ سو سواروں کے ساتھ ستر ہزار درہم دے کر روانہ کیا‘ کہ راستے ہی میں عمر بن عبدالرحمن کو روک کر اور یہ رقم دے کر واپس کر دو‘ اگر وہ واپس ہونے سے انکار کرے‘ تو تم اپنے پانچ سو سواروں سے اس کو گرفتار کر لینا۔ عمر بن عبدالرحمن نے اول تو انکار کیا‘ لیکن پھر پانچ سو سواروں کی جمعیت دیکھ کر مناسب سمجھا‘ کہ ستر ہزار درم قبول کر لیے جائیں‘ چنانچہ ستر ہزار درہم لے کر بصرہ کی طرف روانہ ہو گیا‘ عبداللہ بن مطیع بھی بصرہ ہی میں چلا گیا تھا۔ اب عمر بن عبدالرحمن نے بھی بصرہ ہی کا رخ کیا‘ جہاں حرث بن ابی ربیعہ حکومت کر رہا تھا۔ مختار کا دعویٰ نبوت اور کرسی علی رضی اللہ عنہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ جب کوفہ میں تشریف رکھتے تھے تو آپ کی ایک کرسی تھی‘ اسی پر بیٹھ کر اکثر حکم احکام جاری کیا کرتے تھے‘ آپ کا ایک بھانجا جعدہ بن ہبیرہ جو ام ہانی بنت ابی طالب کا بیٹا تھا کوفہ میں رہا کرتا تھا‘ وہ کرسی اسی کے قبضہ میں تھی‘ مختار نے کوفہ میں اپنا قبضہ بٹھا کر اس کرسی کے حاصل کرنے کی کوشش کی‘ جعدہ نے کہا اچھا مجھے ایک ہفتہ کی مہلت دیجئے کہ میں اس کو تلاش کر کے آپ کی خدمت میں پیش کروں‘ مختار نے کہا کہ میں تین دن سے زیادہ مہلت ہر گز نہ دوں گا‘ اگر اس عرصہ میں تم نے کرسی نہ پہنچائی‘ تو سختی و تشدد کا برتائو شروع کیا جائے گا۔ جعدہ کے محلہ میں ایک روغن فروش رہتا تھا‘ اس کے پاس بھی اسی قسم کی ایک کرسی تھی‘ جعدہ نے وہ کرسی اس سے خریدی اور پوشیدہ طور پر اپنے گھر لے گیا‘ اس کو خوب صاف کیا اور بڑے تکلف اور احتیاط کے ساتھ غلافوں میں لپیٹ کر مختار کے پاس لے گیا‘ مختار نے کرسی لے کر جعدہ کو خوب انعام و اکرام دیا‘ کرسی کو بوسہ دیا‘ اس کو سامنے رکھ کر دو رکعت نماز پڑھی‘ پھر اپنے مریدوں کو جمع کرکے کہا کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے لیے تابوت سکینہ کو موجب نصرت و برکت بنایا تھا‘ اسی طرح شیعان علی رضی اللہ عنہ کے لیے اس کرسی کو نشانی قرار دیا ہے‘ اب ہم کو ہر جگہ فتح و نصرت حاصل ہو گی۔ اس کے مریدین نے اس کرسی پر آنکھیں ملیں‘ بوسے دیئے‘ اوراس کے آگے سر جھکائے‘ پھر مختار نے حکم دیا کہ ایک تابوت بنایا جائے‘ چنانچہ نہایت خوب صورت تابوت تیار ہوا اس کے اندر وہ کرسی رکھی گئی‘ چاندی کاایک قفل اس تابوت میں لگایا گیا‘ اوراس تابوت کی حفاظت کے لیے آدمی متعین کئے گئے۔ جامع مسجد کوفہ میں وہ تابوت رکھا گیا‘ ہرشخص نماز پڑھنے کے بعد اس تابوت کو بوسہ دیتا تھا‘ مختار نے کوفہ کی حکومت کرنے سے پہلے ہی اپنے مکرو تنویر کا جال پھیلانا اور اپنی غیر معمولی روحانی طاقتوں کا لوگوں کو معتقد بنانا شروع کر دیا تھا‘ حکومت کوفہ حاصل کرنے کے بعد اس کی چالاکی و ہوشیاری کو اور بھی زیادہ کامیابی کے مواقع میسر آنے لگے‘ اور رفتہ رفتہ وہ نبوت کے دعووں تک پہنچنے لگا۔ جس زمانہ نے میں مختار نے کوفہ پر قبضہ کیا اور عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنھما کو مذکورہ خط لکھا‘ اسی کے قریب زمانہ میں چند روز کے لیے عبدالملک بن مروان نے‘