تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
ہوتا ہوں۔ یہ سن کر خلیفہ امین نے عبدالملک کو شام و جزیرہ کی سند گورنری مرحمت فرما کر روانہ کیا۔ عبدالملک نے رقہ میں پہنچ کر رئوساء شام سے خط و کتابت شروع کی اور تھوڑے ہی دنوں میں اہل شام کا ایک بڑا لشکر فراہم کر لیا۔ حسین بن علی بن عیسیٰ بھی عبدالملک کے ساتھ تھا اور عبدالملک کی فوج میں اس حصہ فوج کا سردار تھا جو خراسانیوں پر مشتمل تھی۔ عبدالملک اسی عرصہ میں بیمار ہو کر فوت ہوا‘ اور شامیوں اور خراسانیوں میں خانہ جنگی شروع ہوئی۔ شام کے لوگ اپنے اپنے گھروں کو چل دئیے۔ حسین بن علی تمام خراسانی لشکر کو لیے ہوئے بغداد کی طرف روانہ ہوا‘ اہل شہر اور رئوساء بغداد نے اس کا استقبال کیا۔ رات کے وقت خلیفہ امین نے حسین بن علی کو اپنے دربار میں طلب کیا‘ حسین نے جانے سے انکار کیا اور صبح ہوتے ہی اپنے ہمراہیوں کو خلیفہ امین کی معزولی پر آمادہ کر کے بغداد کے پل پر آیا۔ یہاں امین کی فوج نے مقابلہ کیا مگر شکست کھائی۔ حسین بن علی نے قصر خلافت پر حملہ کر کے امین اور اس کی والدہ زبیدہ خاتون کو گرفتار کر کے قصر منصور میں لا کر قید کر دیا اور خلافت مامون کی لوگوں سے بیعت لی۔ اگلے دن لوگوں نے حسین بن علی سے اپنے روزینے طلب کئے‘ مگر حسب منشاء نہ پائے اور آپس میں سرگوشیاں کرنے لگے۔ رفتہ رفتہ اہل بغداد امین کی معزولی اور گرفتاری پر افسوس کرنے لگے اور پھر متحد ہو کر حسین بن علی کے مقابلہ پر آمادہ ہو گئے‘ حسین بن علی نے ان لوگوں کا مقابلہ کیا۔ بڑی خون ریز جنگ ہوئی جس میں حسین بن علی شکست کھا کر گرفتار ہوا۔ اہل شہر نے قصر منصور میں جا کر امین اور زبیدہ کو آزاد کیا۔ امین کو لا کر تخت خلافت پر بٹھایا اور دوبارہ بیعت کی۔ حسین پا بہ زنجیر امین کے رو بہ رو پیش کیا گیا۔ امین نے ملامت کر کے اس کو آزاد کر دیا اور کہا کہ تم اب اپنی خطا کی تلافی اس طرح کرو کہ طاہر بن حسین کے مقابلے پر جائو اور اس کو شکست دے کر ناموری حاصل کرو۔ حسین کو خلعت گراں بہا عطا ہوا اور نہایت عزت و احترام کے ساتھ رخصت کیا گیا۔ اہل بغداد اس کو مبارک باد دیتے ہوئے پل تک آئے۔ جب لوگوں کا مجمع کم ہو گیا تو حسین بن علی پل کو عبور کر کے وہاں سے بھاگ کھڑا ہوا اور اپنی بغاوت کا اعلان کرتا گیا۔ امین نے اس کے تعاقب میں سواروں کو بھیجا‘ بغداد سے تین میل کے فاصلے پر سواروں نے حسین کو جا لیا۔ خفیف سی لڑائی کے بعد حسین بن علی مارا گیا اس کا سر اتار کر لوگ امین کے سامنے لائے۔ یہ واقعہ ۱۵ رجب ۱۹۶ھ کو وقوع پذیر ہوا۔ اسی روز حسین بن علی کے قتل ہونے پر فضل بن ربیع جو امین کا وزیراعظم تھا‘ ایسا رو پوش ہوا کہ کسی کو اس کی اطلاع نہ ملی۔ فضل بن ربیع کے اس طرح غائب ہونے اور دھوکہ دئیے جانے سے امین کو اور بھی زیادہ پریشانی کا سامنا ہوا۔ طاہر کی ملک گیری بغداد میں مذکورہ بالا حالات رونما ہو رہے تھے‘ ادھر طاہر بن حسین حلوان میں ہرثمہ بن اعین کو مفتوحہ ممالک کی حکومت سپرد کر کے مامون کے حکم کے موافق اہواز کی جانب بڑھا۔ اپنی روانگی سے پیشتر اس نے حسین بن عمر رستمی کو روانہ کر دیا تھا۔ ادھر بغداد سے خلیفہ امین نے عبداللہ و احمد کے واپس آنے پر محمد بن یزید بن حاتم کو اہواز کے بچانے کے لیے روانہ کیا تھا۔ طاہر نے یہ سن کر کہ محمد بن یزید بغداد سے فوج لیے ہوئے آ رہا ہے‘ چند دستے حسین بن عمر رستمی کی کمک کے لیے روانہ کر