تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
دولت صمادیہ الجیریا الجیریا میں خاندان صمادیہ کی مستقل حکومت قائم ہو گئی‘ اور یہ حکومت ۳۹۸ھ سے ۵۴۷ھ تک قائم رہی‘ اسی طرح عبیدیوں کے دارالسلطنت کے تبدیل ہونے پر مراقش میں بھی قبائل بربر خود مختار ہو گئے تھے جن کو خاندان مرابطین نے اپنا محکوم بنایا۔ دولت مرابطین عہد خلافت بنو امیہ میں یمن کے بعض قبائل علاقہ بربر یعنے تیونس و الجیریا و مراکو میں آ کر آباد ہو گئے تھے‘ ان لوگوں نے بتدریج اپنے وعظ و پند اور اپنی اسلامی زندگی کے نمونہ سے بربریوں کو اسلام میں داخل کیا اور انہیں کی سعی و کوشش کا یہ نتیجہ ہوا کہ بربری لوگوں نے اسلام کو قبول کیا‘ انہیں میں سے ایک قبیلہ مراکش میں قیام پذیر تھا‘ ۴۴۸ھ میں قبیلہ لمتونہ کے فقیہ عبداللہ بن یاسین کے وعظ و پند سے وہ بربری لوگ جو اب تک اسلام میں داخل نہیں ہوئے تھے مسلمان ہو گئے اور انہوں نے عبداللہ بن یاسین کو اپنا سردار بنانا چاہا مگر عبداللہ نے انکار کر کے ابو بکر بن عمر ایک شخص کی طرف اشارہ کیا‘ چنانچہ نو مسلم بربریوں نے ابوبکر بن عمر کو اپنا سردار بنا کر امیر المسلمین کے نام سے پکارنا شروع کیا‘ اس جمعیت کو دیکھ کر ارد گرد کے بہت سے قبائل آ آ کر جمع ہونے شروع ہوئے۔ مراکش میں ان دنوں کوئی مستقل حکومت قائم نہ تھی‘ بلکہ الگ الگ قبائل کی حکومتیں قائم تھیں‘ اور کوئی کسی کا محکوم نہ تھا‘ اس طائف الملوکی کے زمانے میں ابوبکر بن عمر کی طاقت دم بدم ترقی کرنے لگی‘ ابوبکر بن عمر نے اپنے ہمراہیوں کو مرابطین کا خطاب دیا‘ یعنی سرحد اسلام کی حفاظت کرنے والی فوج‘ انہیں کو ملثمین بھی کہتے ہیں‘ ابوبکر نے بربری قبائل میں خدمت اسلام کا جوش پیدا کر کے ان کو خوب بہادر و اولوالعزم بنا دیا اور مراقش سے مشرق کی جانب پیش قدمی کر کے سجلماسہ کو فتح کر لیا اور اپنے چچا زاد بھائی یوسف بن ساشفین کو سلجلماسہ کا حاکم مقرر کیا۔ یہ یوسف بن تاشفین بڑا دین دار اور بہادر و عقل مند تھا‘ ۴۵۳ھ میں جب ابوبکر بن عمر کا انتقال ہوا‘ تو یوسف بن تاشفین اس ملک کا بادشاہ ہوا‘ ۴۶۰ھ میں یوسف نے شہر مراکش آباد کیا اور اسی کو اپنا دارالسلطنت بنایا۔ ۴۷۲ھ میں جب کہ عیسائیوں نے ہسپانیہ کے مسلمان رئیسوں کو اپنی حملہ آوریوں سے بہت تنگ کیا تو انہوں نے یوسف بن تاشفین سے مدد کی درخواست کی‘ یوسف بن تاشفین نے اندلس یعنی ہسپانیہ میں جا کر عیسائیوں کو ایک بڑے معرکہ میں شکست فاش دے کر ان کی کمر توڑ دی‘ اس کے بعد وہ تین ہزار بربری یعنی لشکر مرابطین کو اندلس میں حفاظت کے لیے چھوڑ کر خود افریقہ یعنی مراکش کو واپس چلا آیا۔ چار برس کے بعد عیسائیوں نے پھر اندلس کے مسلمانوں کو تنگ کیا اور انہوں نے یوسف سے مدد کی استدعاء کی‘ اس مرتبہ اس نے عیسائیوں کو۔۔۔ شکست فاش دے کر اندلس کے اسلامی علاقے کو اپنی سلطنت کا ایک صوبہ بنا لیا‘ غرض مرابطین کی حکومت میں بہت جلد اندلس‘ مراکش‘ ٹیونس‘ الجیریا‘ طرابلس شامل ہو گئے‘ بحری قوت کی جانب اس خاندان نے زیادہ توجہ نہیں کی‘ ۵۵۱ھ تک مرابطین کی حکومت قائم رہی‘ اپنے بہادرانہ کارناموں سے ایک سو سال تک انہوں نے عیسائی طاقتوں کا ناطقہ بند رکھا۔ دولت الموحدین بربر کے قبیلہ مسمودا کا ایک شخص ابو عبداللہ محمد بن تومرت جو جبل سوس کا باشندہ