تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
بھی روانہ کیا‘ اس فرمان اور خلعت کا اثر یہ ہوا کہ عام طور پر لوگوں نے بطیب خاطر عمرو بن لیث کی حکومت کو تسلیم کر لیا اور اس کی طاقت بڑھ گئی۔ موفق و معتضد کے ہاتھوں زنگیوں کا استیصال زنگیوں کی چیرہ دستی اور لشکر خلافت کا بار بار ان کے مقابلہ میں شکست پانا کوئی معمولی بات نہ تھی‘ قریباً دس سال ہو گئے تھے کہ زنگی برابر شاہی لشکر اور نامور سرداروں کو نیچا دکھا رہے تھے اور شہروں کے امن و امان کو غارت کر چکے تھے‘ ایک ایک زنگی نے دس دس اور پندرہ پندرہ علوی و ہاشمی عورتیں اپنے تصرف میں رکھ چھوڑی تھیں‘ بہبود اور خبیث نامی ان کے سردار ممبروں پر چڑھ کر خلفاء راشدین‘ اہل بیت اور ازواج مطہرات سب کو گالیاں دیتے تھے‘ بہبود نے عالم الغیب ہونے کا دعویٰ کیا تھا‘ رسالت کا بھی مدعی تھا‘ قریباً ایک کروڑ مسلمانوں کو قتل کر چکے تھے‘ پیہم فتح مندی نے ان کی ہیبت دلوں پر طاری کر دی تھی‘ ترکوں کے غرور بہادری کو بھی انہوں نے خاک میں ملا دیا تھا۔ ترک ان کے نام سے لرزتے تھے۔ آخر خلیفہ معتمد کے بھائی موفق نے اپنے بیٹے ابو العباس معتضد کو جو کہ بعد میں معتضد باللہ کے لقب سے خلیفہ ہوا‘ زنگیوں کی جنگ پر ماہ ربیع الثانی ۲۶۶ھ میں مامور کیا‘ ابو العباس معتضد نے واسط کے قریب ایک سخت لڑائی کے بعد زنگیوں کو شکست فاش دی‘ یہ پہلی قابل تذکرہ شکست تھی جو زنگیوں نے لشکر خلافت کے مقابلہ میں کھائی‘ اس کے بعد موفق خود بھی بیٹے سے جا ملا اور باپ بیٹے نے مل کر زنگیوں کو پیہم شکستیں دینی شروع کیں‘ حتیٰ کہ چار سال تک برابر مصروف جنگ رہنے کے بعد ۲۷۰ھ کے ماہ صفر کی پہلی تاریخ کو زنگیوں کا سردار خبیث مارا گیا اور فتنہ کا مکمل استیصال ہو گیا تو شہر میں چراغاں کیا گیا اور بڑی خوشیاں منائی گئیں‘ ادھر موفق اور معتضد دونوں باپ بیٹے زنگیوں کے مقابلہ میں مصروف تھے‘ ادھر موصل میں خوارج نے ادھم مچا رکھی تھی۔ مساور خارجی جیسا کہ اوپر بیان ہو چکا ہے ۲۶۳ھ میں مارا جا چکا تھا‘ اس کے بعد اس کے مریدین و متبعین نے جمعیت فراہم کی اور ان کے دو گروہ ہو گئے‘ یہ دونوں گروہ آپس میں ۲۷۶ھ تک مصروف جنگ رہے‘ مگر دربار خلافت سے اس علاقہ میں امن و امان قائم کرنے کی کوشش عمل میں نہیں آئی‘ اسی سے تمام ممالک محروسہ کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ خراسان کی طائف الملوکی ! یعقوب صفار کا جب انتقال ہوا تو خلیفہ معتمد نے اس کے بھائی عمرو بن لیث کو سند حکومت عطا کر دی‘ مگر خراسان میں خاندان طاہریہ کے ہمدرد و ہوا خواہ موجود تھے‘ انہیں میں ایک شخص ابو طلحہ اور دوسرا رافع بن ہرثمہ تھا‘ یہ حسین بن طاہر کے نام سے جمعیت فراہم کر کے شہروں پر قبضہ کرنا اور اپنی حکومت کی بنیاد قائم کرنا چاہتے تھے‘ یہ کبھی عمرو بن لیث کے عاملوں کو نکال کر شہروں پر قبضہ کرتے اور کبھی آپس میں ایک دوسرے سے لڑتے تھے‘ ان معرکوں اور لڑائیوں میں اسماعیل بن احمد بن اسد بن سامان حاکم بخارا سے بھی مدد طلب کرتے تھے۔ اسماعیل سامانی کبھی ایک کا مدد گار ہوتا‘ کبھی دوسرے کا‘ اور کبھی عمرو بن لیث صفار کی مدد کے لیے موجود ہو جاتا‘ غرض ان ممالک میں ایک طوفان بے تمیزی برپا تھا‘ انہیں حالات میں ۲۷۱ھ میں موفق نے اپنی طرف سے صوبہ خراسان کی گورنری پر محمد بن طاہر کو مقرر کیا‘ خلیفہ معتمد جو اس سے پہلے عمرو بن لیث صفار کو خراسان