تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
پور میں تعلیم پائی تھی‘ وہ عمر خیام اور نظام الملک طوسی وزیراعظم الپ ارسلان و ملک شاہ کا ہم سبق رہ چکا تھا‘ نہایت ذہین اور خود دار شخص تھا۔ مستنصر عبیدی کے زمانہ میں حسن بن صباح مصر پہنچا‘ وہاں اس کی بڑی عزت و تکریم ہوئی‘ سال بھر سے زیادہ عرصہ تک وہ مصر میں شاہی مہمان اور مستنصر کے مصاحب کی حیثیت سے رہا۔ وہاں اس نے عقائد اسمٰعیلیہ سے پوری واقفیت حاصل کر کے مستنصر کے ہاتھ پر بیعت کی اور دولت عبیدیہ کے اعلیٰ درجہ کے داعیوں میں شمار ہوا‘ جب حسن بن صباح اسماعیلی داعی بن کر روانہ ہوا تو اس نے مستنصر سے پوچھا کہ آپ کے بعد کس کے احکام کی تعمیل کروں اور آپ کے بعد میرا امام کون ہو گا‘ مستنصر نے کہا کہ میرے بعد تمھارا امام میرا بیٹا نزار ہو گا‘ چنانچہ اسی وجہ سے حسن بن صباح کی قائم کی ہوئی جماعت کو نزاریہ بھی کہتے ہیں۔ مصر سے عراق و ایران میں واپس آ کر حسن بن صباح نے مختلف شہروں میں تھوڑے تھوڑے دنوں اقامت اختیار کی اور لوگوں کو اپنا ہم خیال بنانا شروع کیا‘ یہاں پہلے ہی سے اسمٰعیلی داعیوں کی کوشش سے بہت سے شیعہ اور غیر شیعہ اسمٰعیلیہ خیالات کے پیرو ہو چکے تھے‘ اس لیے حسن بن صباح کو بہت جلد بہت سے معاون و مددگار مل گئے۔ ملک شاہ کی طرف سے صوبہ اصفہان و قہستان کا حاکم مہدی علوی تھا‘ حسن بن صباح نے دھوکہ دے کر مہدی علوی سے اپنی عبادت گاہ بنانے کے لیے قلعہ الموت کو خرید لیا‘ اس قلعہ میں بیٹھ کر اس نے ہر قسم کی مضبوطی کر لی اپنے معتقدین کو جمع کر کے اور اردگرد کے جاہل و جنگ جو قبائل میں اپنا اثر قائم کرنے کے بعد اپنی حکومت کی بنیاد قائم کی اور شیخ الجبل کے نام سے مشہور ہوا‘ اس نے بعض عجیب و غریب عقائد و اعمال ایجاد کر کے ان کی تلقین کو لوگوں کی‘ اس نے فدائیوں کا ایک گروہ تیار کیا‘ ان فدائیوں نے بڑے بڑے کام کئے‘ دنیا کے بڑے بڑے بادشاہوں‘ وزیروں‘ عالموں کو حسن بن صباح قلعہ الموت میں بیٹھا ہوا اپنے فدائیوں کے ہاتھ سے قتل کرا دیتا تھا‘ حسن بن صباح نے اپنے مشہور داعی کیا بزرگ امید کو اپنا ولی عہد و جانشین بنایا‘ اس کے بعد کیا بزرگ امید کی اولاد میں کئی پشت تک حکومت قائم رہی۔ آخر ۶۲۵ھ میں ہلاکو خاں کے ہاتھ سے اس حکومت کا خاتمہ ہوا‘ یہ سلطنت جو حسن بن صباح نے قائم کی تھی قہستان میں ۴۸۳ھ تک‘ پونے دو سو سال تک قائم رہی‘ اس اسمٰعیلی حکومت کی دھاک ساری دنیا میں بیٹھی ہوئی تھی‘ اور بڑے بڑے شہنشاہ فدائیوں سے ڈرتے تھے کیونکہ وہ ہمشیہ دھوکے اور دشمن کو تنہا پا کر اچانک حملہ کرتے تھے۔ ملک شام پر عیسائیوں کے صلیبی حملے یورپ کے عیسائیوں نے متفق و متحد ہو کر مسلمانوں پر سنہ ۴۹۰ھ سے حملے شروع کیے۔ عیسائیوں کے مذہبی پیشوائوں یعنی پادریوں نے تمام یورپ کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکا کر دیوانہ بنا دیا تھا اور ملک شام کو مسلمانوں کے قبضے سے نکال لینے کو اعلیٰ درجہ کی مذہبی خدمت اور ذریعہ نجات قرار دیا گیا تھا۔ عیسائیوں کے ان حملوں۱؎ کا سلسلہ تین سو سال تک جاری رہا۔ یورپ کے تمام عیسائی بادشاہ اپنی ہر قسم کی متحدہ طاقت صرف کرنے اور بہ ذات خود عیسائی حملہ آوروں کے ساتھ ملک شام کی طرف آنے پر آمادہ ہو گئے تھے۔ ان تمام لڑائیوں اور چڑھائیوں کا سلسلہ تاریخ اسلام کا ایک دلچسپ باب ہے اور اس داستان کو ایک ہی جگہ مسلسل بیان کیا جائے گا‘ ان شاء اللہ! ان صلیبی لڑائیوں کا وہ حصہ جہاں صلاح الدین ایوبی نے عیسائیوں کا مقابلہ کیا ہے‘ نہایت