تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
قدر کا انکار کیا‘ آپ نے اس کو بلا کر توبہ کرنے کا حکم دیا‘ اس نے کہا کہ اگر میں گمراہ ہوتا‘ تو آپ کا یہ ہدایت کرنا مناسب تھا‘ آپ نے فرمایا کہ الٰہی اگر یہ شخص سچا ہے تو خیر ورنہ اس کے ہاتھ اور پیر کاٹ اور سولی پر چڑھا‘ یہ فرما کر اس کو چھوڑ دیا‘ وہ اپنے عقیدہ پر قائم رہا اور اس کی اشاعت بھی کرتا رہا‘ مگر خلیفہ ہشام بن عبدالملک نے اس کو اس عقیدے کے جرم میں پکڑ کر اس کے اعضاء کٹوائے اور سولی پر چڑھا دیا۔ ایک مرتبہ بنو مروان سیدنا عمر بن عبدالعزیز کے دروازے پر جمع ہوئے‘ اور آپ کے صاحبزادے سے کہا کہ اپنے والد سے جا کر کہو کہ آپ سے پہلے جتنے خلفاء ہوتے رہے ہیں وہ سب ہمارے لیے کچھ عطایا اور جاگیریں مخصوص کرتے رہے ہیں‘ لیکن آپ نے خلیفہ ہو کر ہم پر تمام چیزیں حرام کر دیں‘ آپ کے صاحب زادے نے یہ پیغام جا کر کہا‘ تو آپ نے فرمایا کہ ان سے جا کر کہہ دو کہ میرا باپ کہتا ہے: {اِنِّیْ اَخَافُ اِنْ عَصَیْتُ رَبِّیْ عَذَابَ یَوْمٍ عَظِیْمٍ} (الانعام : ۶/۱۵) ’’اگر میں اپنے رب کی نافرمانی کروں تو بڑے دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں۔‘‘ خوارج! اب تک کے تمام حالات پڑھنے سے یہ بات پوشیدہ نہیں رہی کہ خوارج کا فتنہ مسلسل جاری رہا اور کسی زمانے میں بھی اس کا استیصال نہیں ہوسکا‘ جب کبھی کوئی زبردست خلیفہ تخت خلافت پر متمکن ہوا تو یہ لوگ خاموش ہو کر مناسب موقع کا انتظار کرنے لگے‘ اور جب کبھی ان کو موقع ملا فوراً میدان میں نکل آئے‘ خوارج اور تمام خفیہ سازشوں اور بغاوتوں کے لیے عراق و خراسان وغیرہ ہی مخصوص رہے ہیں اور یہیں اس نے پرورش پانے کے مواقع حاصل کئے ہیں‘ جیسا کہ آئندہ حالات سے بھی ظاہر ہو گا‘ بہر حال خوارج کبھی علانیہ اور کبھی خفیہ سرگرمیوں اور کوششوں میں برابر مصروف رہے ہیں۔ سیدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ تعالی تخت خلافت پر متمکن ہوئے اور آپ کی نیکی و پاک باطنی کا حال لوگوں کو معلوم ہوا‘ تو خوارج بھی آپ کے اخلاق فاضلہ کو دیکھ کر شرما گئے‘ اور انہوں نے خود یہ فیصلہ کیا‘ کہ عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ تعالی جیسے صالح خلیفہ کے زمانہ میں حکومت و سلطنت موجودہ کے خلاف کوئی انقلابی کوشش کرنی کسی طرح مناسب نہیں ہے‘ بہتر یہی ہے کہ جب تک یہ فرشتہ خصائل خلیفہ موجود ہے‘ ہم اپنی سرگرمیوں کو ملتوی رکھیں‘ چنانچہ آپ کے عہد خلافت میں خارجیوں نے مطلق سر نہیں اٹھایا۔ ایک مرتبہ صرف خراسان میں انہوں نے سر اٹھایا تھا‘ آپ نے وہاں کے عامل کو لکھ دیا کہ جب تک وہ کسی کو قتل نہ کریں اس وقت تک تم ان سے تعرض نہ کرو‘ مگر ہاں ان کی حرکات و سکنات سے تم واقف رہو‘ پھر آپ نے خوارج کے سردار کو ایک خط لکھا کہ ہم کو معلوم ہوا ہے کہ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی حمایت کے لیے اٹھے ہو مگر اس بات کا حق تمہارے مقابلے میں ہم کو زیادہ ہے‘ تم ہمارے پاس چلے آئو‘ اور ہم سے مباحثہ کر لو‘ ہم حق پر ہیں تو تم ہمارا ساتھ دو‘ اور اگر تم حق پر ہو گے تو ہم تمہاری بات مان لیں گے۔ اس خط کو پڑھ کر خوارج کے سردار نے اپنی طرف سے دو ہوشیار آدمیوں کو مناظرہ کرنے کے لیے روانہ کیا‘ ان دونوں نے آکر سیدنا عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ تعالی سے