تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
چھوڑی اور باقی فوج کو لے کر دمشق کی جانب متوجہ ہوا۔ یہاں اہل دمشق نے مقابلہ کیا اور بڑی خونریز جنگ ہوئی‘ جس میں ڈیڑھ ہزار آدمی اہل دمشق کے اور تین سو آدمی رجاء کی فوج کے مقتول ہوئے۔ اہل دمشق نے ہزیمت پا کر امن کی درخواست کی اور یہ بغاوت بالکل فرو ہو گئی۔ یہاں سے فارغ ہو کر رجاء رملہ کی جانب گیا۔ اور ابو حرب کو شکست دے کر گرفتار کر لیا۔ ابو حرب کے ہمراہیوں میں سے بیس ہزار آدمی ان لڑائیوں میں مقتول ہوئے تھے۔ اشناس کا عروج و زوال خلیفہ واثق باللہ نے تخت نشین ہو کر اشناس کو جو ترکی غلام تھا اپنا نائب السلطنت بنا کر تمام ممالک محروسہ اسلامیہ کے سیاہ و سفید کا اختیار کامل دے دیا۔ وزیراعظم محمد بن عبدالملک بن زیات جو معتصم کے زمانے سے وزیراعظم چلا آتا تھا واثق کے زمانے میں بھی وزیراعظم رہا۔ یہ عہدہ جو اشناس کو سپرد کیا گیا اس کا نام نائب السلطنت تھا‘ جو واثق باللہ نے نیا ایجاد کیا تھا۔ نائب السلطنت خلیفہ کے تمام اختیارات کا استعمال کرتا اور وزیراعظم کا اسی طرح افسر و حاکم تھا جیسے خلیفہ۔ اب تک کسی خلیفہ نے ایسے وسیع اختیارات کسی دوسرے کو نہیں دئیے تھے۔ ترکوں کو اگرچہ افشین کے قتل سے ایک قسم کا نقصان و صدمہ پہنچا تھا لیکن ان کی فوجیں‘ پلٹنیں‘ رسالے بدستور موجود تھے۔ ان کی قدر و منزلت بھی بدستور موجود تھی۔ اب واثق باللہ کے تخت نشین ہونے پر اشناس کو جب حکومت اسلامیہ میں سیاہ و سفید کے اختیارات کامل عطا ہوئے تو یوں سمجھنا چاہیئے کہ تمام عالم اسلامی میں ترکوں ہی کی حکومت قائم ہو گئی اشناس کو یہ حکومت زیادہ دنوں راس نہ آئی اور جلد ہی اس کے اختیارات پر بھی حد بندی قائم ہو گئی مگر یہ ایک ایسی نظیر قائم ہوئی جو بعد میں دولت عباسیہ کے زوال و بربادی کا باعث ہوئی۔ واثق باللہ چونکہ مجالس علمیہ کا بھی شوقین تھا اس لیے وہ علماء و اراکین سلطنت کی مجلسوں میں بیٹھ کر گھنٹوں مذاکرات علمیہ اور روایات قدیمہ سنا کرتا تھا۔ علماء چونکہ اکثر عربی النسل لوگ تھے‘ انہوں نے ہارون الرشید کے زمانے کے واقعات بھی موقع پا کر سنانے شروع کئے۔ برا مکہ کے علمی ذوق اور سخاوت کی حکایتوں کے ساتھ ہی ان کے اقتدار و اختیار کے قصے اور پھر خاندان خلافت کے خلاف کی سازشوں کی کیفیت اور بربادی کے تمام واقعات مناسب اور موزوں انداز میں واثق باللہ کے گوش گذار کئے‘ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ واثق باللہ کی کچھ آنکھیں سی کھل گئیں اور اس نے ترکی و خراسانی امرأ کی نگرانی اور دیکھ بھال شروع کر دی‘ اکثر لوگوں پر غبن کے الزامات پایۂ ثبوت کو پہنچے اور واثق باللہ نے ان سے جرمانے وصول کرنے شروع کر دیئے۔ اسی سلسلہ میں اشناس ترکی کے اختیارات بھی محدود کر دیئے اور وہ ۲۳۰ھ میں فوت ہو گیا۔ اہل عرب کے وقار کا خاتمہ اب تک برابر سلطنت عباسیہ اہل عرب کی سیادت و عزت کے کم کرنے میں مصروف رہی تھی اور عجمیوں کو برابر فروغ حاصل ہوتا رہا تھا تاہم ملک عرب کی گہوارہ اسلام ہونے کے سبب ایک خاص عزت اور دین اسلام کے اولین خادم ہونے کی وجہ سے عربوں کا ایک خصوصی احترام ہر ایک کے قلب میں موجود تھا۔ خود خاندان خلافت ایک عربی خاندان تھا۔ اس لیے عجمیوں کو یہ خواہش کبھی نہ ہوئی تھی کہ ہم عربوں کو ذلیل کرنے