تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
مسلمانوں کا کوئی امیر اور خلیفہ منتخب و متعین ہو‘ اس وقت تک ہم آپ کو اپنا امیر و امام مانیں گے‘ اور آپ کے احکام کی فرماں برداری کریں گے۔ یہ ضحاک بن قیس بھی خلافت کے لیے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنھما ہی کو سب سے بہتر سمجھتے تھے۔ فلسطین کا گورنر حسان بن مالک تھا‘ وہ البتہ اس امر کا خواہاں تھا کہ آئندہ بھی جو خلیفہ منتخب ہو وہ بنی امیہ میں سے ہو۔ غرض معاویہ بن یزید کی وفات پر تمام عالم اسلام سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنھما کی خلافت پر متفق ہو چکا تھا‘ اور بنی امیہ کے سوا باقی تمام با اثر اشخاص وراثت کو خلافت سے مٹانے اور عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنھما کو خلیفہ بنانے پر آمادہ پائے جاتے تھے۔ عبیداللہ بن زیاد کی یزید کے بعد عراق میں جو حالت ہوئی‘ اوپر پڑھ چکے ہو اب اس کے بھائی مسلم بن زیاد کا حال سنو جو خراسان کا گورنر تھا۔ خراسان میں جب یزید کے مرنے کی خبر پہنچی‘ تو مسلم بن زیاد نے اہل خراسان سے کہا کہ یزید کا انتقال ہو گیا ہے‘ جب تک کوئی دوسرا خلیفہ مقرر ہو کر احکامات جاری کرے اس وقت تک کے لیے تم میرے ہاتھ پر بیعت کر لو‘ اہل خراسان نے خوشی سے بیعت کر لی‘ لیکن چند روز کے بعد انہوں نے اس بیعت کو فسخ کر دیا‘ مسلم بن زیاد کا بھی قریباً وہی حشر ہوا جو اس کے بھائی عبیداللہ بن زیاد کا عراق میں ہوا تھا۔ مسلم بن زیاد نے اپنی جگہ مہلب بن ابی صفرہ کو حاکم خراسان مقرر کر کے خود دمشق کا ارادہ کیا‘ راستے میں اس کو عبداللہ بن حازم ملا‘ اس نے عبداللہ بن حازم کو اپنی طرف سے حاکم خراسان مقرر کر دیا‘ اور مہلب بن ابی صفرہ بدستور سپہ سالار فوج رہا‘ عبداللہ بن حازم نے خراسان پہنچ کر تمام سرکشوں اور باغیوں کو درست کر دیا‘ ادھر دمشق میں خلافت کا فیصلہ ہو رہا تھا‘ ادھر عبداللہ بن حازم ترکوں اور مغلوں کو شکست دے کر اسلامی حکومت کا سکہ دلوں پر بٹھا رہا تھا۔ اگر عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنھما حصین ابن نمیر کا مشورہ قبول کر لیتے اور شام کے ملک میں تشریف لے آتے تو یقینا ان کی خلافت کے قیام و استحکام میں کوئی شک و شبہ باقی نہ تھا اور وہ تنہا عالم اسلامی کے خلیفہ بن کر ضرور ان برائیوں کو جن کی بنیاد پڑ چکی تھی‘ کلیۃ مٹا دینے میں کامیاب وہ جاتے‘ مگر شدنی امور اس کے خلاف تھے جو ہو کر رہے۔ مروان بن حکم مروان بن حکم بن ابی العاص بن امیہ بن عبد شمس بن عبدمناف کی پیدائش کا زمانہ ۲ھ ہے‘ ماں کا نام آمنہ بنت علقمہ بن صفوان ہے۔ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں میر منشی اور وزارت کا عہدہ حاصل رہا‘ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں کئی مرتبہ مدینہ کی حکومت حاصل رہی‘ معاویہ بن یزید کی وفات کے بعد چھ سات مہینے تک تنہا سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنھما ہی خلیفہ تھے‘ ان کے سوا اور کوئی شخص بنی امیہ میں سے مدعی خلافت نہ تھا‘ تمام عمال و حکام نے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنھما کی خلافت کو تسلیم کر لیا تھا۔ چھ سات مہینے کے بعد مروان اپنی کوششوں میں کامیاب ہو کر ملک شام پر قابض ہوا‘ لہٰذا مروان کی حیثیت ایک باغی کی قرار دی جا سکتی ہے اور چونکہ خلافت بنو امیہ سے بالکل نکل چکی تھی‘ لہٰذا مروان کو بنو امیہ کی خلافت کا مجدد بھی کہا جا سکتا ہے۔