تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کے قرضے خود ادا کر دیتا تھا‘ اس خلیفہ کا قول تھا کہ میں نے شام کے وقت دوکان کھولی ہے‘ مجھے نیکیاں کر لینے دو‘ ایک مرتبہ خلیفہ خزانہ کی طرف نکل آیا‘ ایک غلام نے کہا کہ یہ خزانہ آپ کے والد کے زمانہ میں بھرا رہتا تھا‘ خلیفہ نے کہا مجھے ایسی کوئی تدبیر قابل عمل معلوم نہیں ہوئی کہ یہ پھر بھر جائے‘ مجھ کو تو خزانہ خالی کرنا ہی آتا ہے‘ خزانہ کا جمع کرنا تو سوداگروں کا کام ہے۔ علماء کو خاص طور پر اس خلیفہ نے بہت مال و دولت دیا‘ اس خلیفہ کا زمانہ سیدنا عمر بن عبدالعزیز کے زمانہ سے مشابہ تھا‘ ملک میں بھی امن و امان رہا اور رعایا اس کے عدل و انصاف سے بے حد مسرور اور خوش تھی‘ مگر اس کی عمر نے وفا نہ کی اور صرف ساڑھے نو مہینے خلافت کر کے ۱۵ رجب ۶۲۳ھ کو فوت ہوا‘ اس کی وفات کے بعد اس کا بیٹا ابو جعفر منصور تخت نشین ہوا اور اپنا لقب مستنصر باللہ تجویز کیا۔ ابو جعفر مستنصر باللہ مستنصر باللہ بن ظاہر بامر اللہ ۵۸۸ھ میں ایک ترکیہ ام ولد کے پیٹ سے پیدا ہوا اور اپنے باپ کی وفات کے بعد رجب ۶۲۳ھ میں تخت نشین ہوا‘ یہ خلیفہ اخلاق فاضلہ میں اپنے باپ سے بہت مشابہ تھا‘ اس نے عدل و انصاف کے قائم رکھنے میں اپنے باپ کی طرح کوشش کی‘ دین و مذہب کی پابندی کا اس کو خاص طور پر شوق تھا‘ بغداد میں اس نے مدرسہ مستنصریہ بنایا اور بڑے بڑے علماء مدرسی پر مقرر کیے‘ اس مدرسہ کی تعمیر کا کام ۶۲۵ھ میں شروع ہو کر ۶۳۱ھ میں ختم ہوا‘ اس مدرسہ میں ایک کتب خانہ قائم کیا جس میں ایک سو ساٹھ اونٹ پر لاد کر نہایت نفیس و نایاب کتابیں داخل کی گئیں‘ حدیث‘ نحو‘ طب‘ اور فرائض کے استاد الگ الگ مقرر کیے گئے‘ ان سب کے کھانے پینے‘ مٹھائی‘ میوے اور دوسری چیزوں کا انتظام مدرسہ کی طرف سے ہوتا تھا‘ بہت سے گائوں اس مدرسہ کے لیے وقف تھے۔ ۶۲۸ھ میں ملک اشرف نے دارالحدیث اشرفیہ کی بنیاد رکھی‘ ۶۳۰ھ میں اس کی تکمیل ہوئی‘ ۶۲۹ھ میں محمد بن یوسف بن قلج ارسلان بن سلیمان بن قتلمش بن اسرائیل بن سلجوق جو ایشیائے کوچک کے اکثر حصہ پر قابض و متصرف تھا فوت ہوا اور اس کا بیٹا غیاث الدین کیخسر و تخت نشین ہوا‘ ۶۴۱ھ میں تاتاریوں نے غیاث الدین کیخسرو پر چڑھائی کر کے شکست دی اور غیاث الدین کیخسرو نے تاتاریوں کی اطاعت قبول کر کے باج گذاری منظور کی‘ اس طرح سلاجقہ روم کی دو صد سالہ حکومت کا خاتمہ ایشیائے کوچک میں ہو گیا‘ غیاث الدین کیخسرو تاتاریوں کی باج گذاری میں ۶۵۶ھ تک حکومت کر کے فوت ہوا‘ اسی زمانہ میں خاندان عثمانیہ کے مورث اعلیٰ نے سلطنت عثمانیہ کے ایوان رفیع کی بنیادی اینٹ رکھی تھی جس کا حال بعد میں مفصل بیان کیا جائے گا۔ خلیفہ مستنصر نے ملک کے انتظام اور عدل و انصاف کے قیام میں بہت کوشش کی مگر چونکہ ترکوں اور تاتاریوں نے یکے بعد دیگرے ولایتوں اور صوبوں پر قبضہ کرنا شروع کیا اور جلد جلد ایک کے بعد دوسرا ملک ان کے قبضے میں آتا گیا‘ لہٰذا خلیفہ کی آمدنی کم ہو گئی‘ صلاح الدین یوسف کی سلطنت جو شام و مصر پر مشتمل تھی‘ صلاح الدین کے وارثوں کی نااتفاقیوں سے برباد ہو رہی۔ تاتاریوں کے سیلاب نے ماوراء النہر سے بحر روم اور بحر اسود تک کے تمام ملکوں کو تاخت و تاراج کر ڈالا تھا‘ تاہم ملک عراق پر خلیفہ کا قبضہ تھا اور تاتاریوں (مغلوں) کے دلوں پر خلیفہ بغداد کا اس قدر رعب قائم تھا کہ وہ خلیفہ کے مقبوضہ ملک کی طرف نگاہ