تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کر فوراً دارالخلافہ کی طرف واپس چلا آیا‘ یہ کبھی ممکن نہ ہوا کہ زیادہ مدت اور کئی برس کے لیے وہ مستقر خلافت سے جدا رہ سکے۔ واثق باللہ کے زمانے میں بھی رومیوں سے چھیڑ چھاڑ جاری رہی۔ خلیفہ ہارون الرشید کے زمانے میں دو مرتبہ عیسائی اور مسلمان قیدیوں کا تبادلہ ہو چکا تھا۔ یعنی مسلمانوں نے عیسائیوں کو جو ان کی قید میں تھے چھوڑ دیا اور اس کے معاوضہ میں عیسائیوں نے ان مسلمان قیدیوں کو جو ان کی قید میں تھے آزاد کر دیا‘ یہ تبادلہ پہلے بھی دریائے لامس کے کنارے ہوا تھا اور اب ۱۰ محرم ۲۳۱ھ کو تیسری مرتبہ واثق باللہ کے عہد میں اسی دریا کے کنارے ہوا‘ جس کی صورت یہ تھی کہ دریائے لامس پر دو پل ایک دوسرے کے متوازی بنائے گئے‘ ایک پل سے عیسائی قیدی اس طرف جاتا۔ اور دوسرے پل سے مسلمان قیدی اس طرف سے آتا تھا‘ اس تبادلہ کے لیے واثق باللہ نے خاقان کو اپنی طرف سے عیسائی قیدیوں کے ساتھ دریائے لامس کے کنارے بھیج دیا تھا‘ برابر تعداد کے قیدیوں کا تبادلہ ہو چکا اور سب مسلمان قیدی جن کی تعداد چار ہزار چھ سو تھی اس طرف آ چکے تو رومی قیدی پھر بھی مسلمانوں کے پاس بہت سے بچ گئے۔ خاقان نے ان بچے ہوئے قیدیوں کو بلا معاوضہ رومیوں کے پاس یہ کہہ کر بھیج دیا کہ اس تبادلہ میں بھی ہمارا درجہ بڑھا ہوا رہنا چاہیئے‘ یہ ہماری طرف سے رومیوں پر احسان ہے۔ واثق باللہ کی وفات واثق باللہ مرض استسقاء میں مبتلا ہوا‘ اس کے تمام جسم پر ورم آ گیا تھا‘ علاج کی غرض سے اس کو گرم تنور میں بٹھایا گیا۔ اس سے مرض میں کچھ کمی محسوس ہوئی‘ اگلے دن تنور کو کسی قدر زیادہ گرم کیا گیا اور پہلے دن کی نسبت زیادہ دیر تک تنور میں بیٹھا رہا جس کی وجہ سے بخار ہو گیا‘ تنور سے نکال کر محافے میں سوار کر کے سیر و تفریح کے لیے لے چلے‘ جب محافہ کو زمین پر رکھ کر دیکھا گیا تو واثق باللہ فوت ہو چکا تھا‘ اسی وقت قاضی احمد بن دئواد‘ محمد بن عبدالملک‘ وزیر اعظم ایتاخ‘ وصیف‘ عمر بن فرح وغیرہ اراکین سلطنت قصر خلافت میں جمع ہوئے اور محمد اور محمد بن واثق باللہ کو جو نو عمر لڑکا تھا تخت خلافت پر بھٹانے لگے‘ اس وقت وصیف نے حاضرین سے مخاطب ہو کر کہا کہ۔۔۔‘‘ کیا تم لوگ اللہ تعالیٰ سے نہیں ڈرتے کہ ایسے نو عمر لڑکے کو خلیفہ بناتے ہو‘‘۔ یہ الفاظ سن کر سب کو خیال ہوا اور اس کام سے رک کر مستحق خلافت شخص کے متعلق گفتگو ہونے لگی‘ آخر واثق باللہ کے بھائی جعفر بن معتصم کو طلب کیا اور خلعت پہنا کر تخت خلافت پر بٹھایا‘ اور متوکل علی اللہ کا خطاب دیا‘ متوکل علی اللہ نے سب سے بیعت خلافت لے کر واثق کی نماز جنازہ پڑھائی اور دفن کرنے کا حکم دیا۔ واثق باللہ کو سڑک پر مقام ہاروتی میں دفن کیا گیا۔ پانچ برس نو مہینے خلافت کی اور ۳۶ برس چار مہینے کی عمر میں بتاریخ ۲۴ ذالحجہ ۲۳۲ھ بروز چہار شنبہ فوت ہوا‘ بہت مستقل مزاج اور برداشت کرنے والا شخص تھا مگر مسئلہ خلق قرآن کے متعلق اس سے بہت زیادتیاں ہوئیں‘ آخر عمر میں یہ خبط اس سے دور ہو گیا تھا۔ عبرت مرنے کے بعد خلیفہ واثق باللہ کو تنہا چھوڑ دیا گیا۔ اور تمام لوگ متوکل علی اللہ سے