تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
۶۴ھ تک جاری رہی‘ ۳ ربیع الاول کو شامیوں نے روئی اور گندھک اور رال کے گولے بنا بنا کر اور جلا جلا کر پھینکنے شروع کئے‘ جس سے خانہ کعبہ کا خلاف جل گیا اور دیواریں سیاہ ہو گئیں‘ دو منجنیق رات دن سنگ باری اور گولہ باری میں مصروف تھیں‘ مکہ والوں کے لیے گھر سے باہر نکلنا دشوار تھا‘ پتھروں کے صدمے سے خانہ کعبہ کی دیواریں شکستہ ہو گئیں تھیں اور چھت گر گئی تھی۔ اہل شام کے اس محاصرے نے بہت شدت اور سختی اختیار کی اور بعد کی امدادی فوج کے آجانے سے اہل شام کی کل تعداد پانچ ہزار تک پہنچ گئی تھی۔ یزید کی اچانک موت یہاں اہل شام خانہ اللہ تعالیٰ اور شہر مکہ پر سنگباری کر رہے تھے‘ ادھر ۱۰ ربیع الاول کو یزید نے مقام حوران میں تین سال اور آٹھ ماہ کی حکومت کر کے ۳۸ یا ۳۹ سال کی عمر میں انتقال کیا‘ یزید کے مرنے کی خبر سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنھما کے پاس پہنچی‘ انہوں نے بلند آواز شامیوں سے کہا کہ بدبختو تم اب کیوں لڑ رہے ہو تمہارا گمراہ سردار مر گیا ہے۔ حصین بن نمیر نے اعتبار نہ کیا اور اس بات کو عبداللہ بن زبیر کی فریب دہی پر محمول کیا‘ لیکن تیسرے دن جب اس کے پاس ثابت بن قیس نخعی نے کوفہ سے آکر یزید کے مرنے کی خبر پہنچائی‘ تو اس نے فوراً محاصرہ اٹھانے اور کوچ کرنے کا حکم دیا۔ شامی لشکر کی ابن زبیر کو عجیب پیشکش روانگی سے پیشتر حصین بن نمیر نے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنھما کے پاس پیغام بھیجا‘ کہ آج شب کو بطحا میں آپ سے ملاقات کرنا چاہتا ہوں‘ چنانچہ قرارداد کے موافق دس آدمی عبداللہ بن زبیر نے ہمراہ لیے اور دس آدمی حصین بن نمیر کے ہمراہ گئے‘ مقام مقررہ میں پہنچ کر حصین بن نمیر نے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنھما کو ہمراہ لے کر تنہا ایک گوشہ میں جا کر باتیں کیں‘ حصین بن نمیر نے کہا کہ میں آپ کو خلیفہ تسلیم کرنے اور آپ کے ہاتھ پر بیعت کرنے کو تیار ہوں‘ میرے ساتھ پانچ ہزار جنگ جو لشکر شام کا موجود ہے یہ بھی میری تقلید کریں گے‘ آپ میرے ساتھ شام کے ملک میں چلیں‘ میں تمام اہل شام کو آپ کی بیعت کے لیے آمادہ کروں گا‘ حجاز والے آپ کے ہاتھ پر بیعت کر ہی چکے‘ اہل شام کے بعد تمام عالم اسلام بلا اختلاف آپ کو خلیفہ تسلیم کر لے گا۔ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنھما نے یہ سمجھا کہ مجھ کو فریب دیا جا رہا ہے‘ چنانچہ انکار کیا اور کہا کہ جب تک میں اہل شام سے انتقام نہ لے لوں گا ہر گز ان کو معاف نہ کروں گا‘ حصین بن نمیر آہستہ کلام کرتا تھا اور عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنھما بلند آواز اور درشتی سے جواب دیتے تھے‘ حصین نے کہا کہ میں آپ کو خلافت دینا چاہتا ہوں اور آپ مجھ سے لڑتے اور سختی سے جواب دیتے ہیں۔ غرض حصین بن نمیر وہاں سے جدا ہو کر اپنے لشکر میں آیا اور کوچ کا حکم دیا‘ بعد میں عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنھما کو اپنی غلطی کا احساس ہوا اور انہوں نے قاصد کے ہاتھ کہلا بھجوایا کہ مجھ کو شام کے ملک میں جانے کے لیے مجبور نہ کیا جائے‘ یہیں آکر بیعت کر لو‘ حصین نے کہا بغیر آپ کے شام میں جائے ہوئے کام نہ چلے گا‘ غرض عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنھما مکہ سے جدا نہ ہوئے۔ ادھر حصین بن نمیر مکہ سے مدینہ کے قریب پہنچا تو وہاں معلوم ہوا کہ یزید کے انتقال کی خبر سن کر اہل مدینہ نے پھر بنی امیہ کے خلاف کھڑے ہو کر یزید کے عامل کو