تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
سے شہر پناہ تیار ہو گئی۔ جس وقت ابو سعید بصرہ کے قریب پہنچا تو دارالخلافہ بغداد سے عباس بن عمر غنوی دو ہزار سواروں کے ساتھ بصرہ کی حفاظت کے لیے آ پہنچا‘ بصرہ سے باہر ہی عباس اور ابو سعید کی لڑائی ہوئی۔ دو روز کی سخت لڑائی کے بعد ابو سعید نے عباس کو گرفتار کر لیا اور جس قدر آدمی عباس کے ہمراہیوں میں سے گرفتار ہوئے سب کو ابو سعید نے آگ میں ڈال ڈال کر جلا دیا‘ یہ واقعہ ۲۸۷ھ کے مہینہ شعبان کا ہے۔ ابو سعید قرمطی نے اس فتح کے بعد بصرہ کو چھوڑ کر علاقہ ہجر کا قصد کیا‘ اہل ہجر کو امن دے کر ہجر پر قبضہ کر لیا اور پھر بصرہ کی طرف آیا۔ اہل بصرہ پہ بہت خوف طاری ہوا مگر بصرہ کے عامل احمد بن محمد واتشفی نے سب کو تسکین و تشفی دی‘ ابو سعید اس مرتبہ بھی بصرہ کو چھوڑ کر اور عباس کو قید سے آزاد کر کے مضافات بحرین کی طرف چلا گیا۔ ۲۸۸ھ میں ایک شخص ابو القاسم یحییٰ المعروف بہ زکرویہ بن مہرویہ کوفہ میں گیا اور قبیلہ قلیص بن ضمضم بن عدی اس مذہب قرامطہ کی جانب مائل ہو گیا‘ رفتہ رفتہ یہ جمعیت بڑھنے لگی تو شبل نامی ایک سردار نے ان پر حملہ کیا۔ اس لڑائی میں قرامطہ کا ایک سردار ابو الفوارس نامی گرفتار ہوا‘ باقی بھاگ کر دمشق کی جانب چلے گئے‘ ابو الفوارس کو شبل نے خلیفہ معتضد کے پاس بغداد بھیج دیا‘ معتضد نے اس کو قتل کرا دیا‘ قرامطہ نے دمشق میں جا کر لوگوں کو اپنی طرف مائل کرنے کی کوشش کی‘ اس وقت دمشق کا حاکم طفج تھا اس نے قرامطہ کا مقابلہ کیا کئی مرتبہ لڑائی ہوئی ہر لڑائی میں قرامطہ نے فتح پائی‘ یہ ۲۸۹ھ کا واقعہ ہے‘ یعنی اس زمانہ میں معتضد باللہ کا عہد حکومت ختم ہو جاتا ہے‘ ۔۔۔۔۔۔ قرامطہ کا باقی حال بعد میں ذکر کیا جائے گا۔ ۲۸۶ھ میں خلیفہ معتضد نے اپنے بیٹے علی کو جس کا آئندہ لقب مکتفی ہوا جویرہ اور عواصم کی سند گورنری عطا کی اور حسن بن عمرو نصرانی کو رقہ سے طلب کر کے مکتفی کا میر منشی یا وزیر مقرر کیا۔ ۲۸۸ھ میں طاہر بن محمد بن عمرو بن لیث صفار نے ایک لشکر فراہم کر کے فارس کے صوبہ پر قبضہ کرنا چاہا‘ مگر اسماعیل سامانی نے اس کو ٹوکا کہ اس صوبہ پر اگر تم نے تصرف کا ارادہ کیا تو میں آتا ہوں‘ طاہر تو رک گیا مگر خلیفہ معتضد کے غلام بدر نے جا کر فارس پر قبضہ کر لیا۔ وزیر عبیداللہ بن سلیمان بن وہب کے انتقال پر خلیفہ معتضد نے اس کے بیٹے ابو القاسم کو وزیر اعظم بنایا تھا‘ خلیفہ معتضد کے زمانہ میں رومیوں پر ۲۸۵ھ‘ ۲۸۷ھ‘ ۲۸۸ھ میں مسلمانوں نے چڑھائیاں کیں‘ کبھی رومیوں کا زیادہ نقصان ہوا‘ کبھی مسلمانوں کا۔ وفات معتضد باللہ ۲۸۹ھ میں خلیفہ معتضد باللہ کثرت جماع کی وجہ سے بیمار ہو گیا‘ مختلف امراض اس پر مستولی ہو گئے تھے‘ نزع کی حالت میں ایک طبیب اس کی نبض دیکھ رہا تھا کہ معتضد نے اس کے ایک لات ماری‘ ادھر طبیب گرتے ہی مر گیا‘ ادھر معتضد کی جان نکل گئی۔ معتضد نے چار لڑکے اور گیارہ لڑکیاں چھوڑیں‘ معتضد کی وفات آخر ماہ ربیع الثانی ۲۸۹ھ میں ہوئی۔