تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
سے باز رکھا‘ ضحاک بن قیس خاموش مسجد سے اٹھ کر دارالامارت میں آئے اور تین دن تک باہر نہ نکلے۔ ان ہی ایام میں عبیداللہ بن زیاد جو عراق سے مایوس و بے دخل ہو کر شام کی طرف بھاگا تھا‘ دمشق میں پہنچا‘ عبیداللہ بن زیاد کے دمشق پہنچنے سے بنی امیہ اور ان کی طرف داروں کو بہت تقویت پہنچی‘ ضحاک بن قیس اور بنی امیہ سب مل کر جابیہ کی طرف نکلے‘ ثور بن معن سلمی ضحاک کے پاس پہنچا اور کہا کہ تم نے ہم کو عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنھما کی بیعت کے لیے مشورہ دیا اور ہم نے اس کو تسلیم کیا‘ اب تم حسان بن مالک کلبی کے کہنے سے اس کے بھانجے خالد بن یزید کی بیعت کے لیے کوشش کرنا چاہتے ہو‘ ضحاک کچھ شرما سے گئے‘ اور ثور بن معن سے کہا کہ اچھا اب تمہاری کیا رائے ہے‘ اس نے کہا کہ اب تک تم نے جس چیز کو پوشیدہ رکھا ہے اسے ظاہر کر دو اورعلانیہ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنھما کی بیعت کے لیے لوگوں کو دعوت دو‘ چنانچہ ضحاک اپنے ہم خیال لوگوں کو لے کر الگ ہو گئے اور مقام مرج راہط میں جا کر قیام کیا۔ بنو امیہ اور ان کے طرف دار بنو کلب مقام جابیہ میں مقیم رہے‘ یہیں حسان بن مالک کلبی بھی اردن سے معہ اپنی جمعیت کے پہنچ گیا تھا‘ جابیہ میں پانچ ہزار بنو امیہ اور بنو کلب جمع ہو گئے تھے‘ مرج راہط میں ضحاک بن قیس کے پاس کل ایک ہزار بنو قیس تھے‘ ضحاک بن قیس نے دمشق میں جو اپنا نائب چھوڑاتھا اس کو یزید بن انیس نے بے دخل کر کے بیت المال پر قبضہ کر لیا‘ یہ درحقیقت ایک بڑی شکست ضحاک کو پہنچی‘ اگر دمشق اور بیت المال ضحاک کے قبضہ میں رہتا‘ تو ان کی طاقت کو اس قدر صدمہ نہیں پہنچ سکتا تھا۔ ضحاک نے مرج راہط سے فوراً نعمان بن بشیر رضی اللہ عنھما ‘ ظفر بن حارث اور نائل بن قیس کو حمص‘ قنسرین اور فلسطین میں حالات کی اطلاع دی‘ ان لوگوں نے ضحاک کی امداد کے لیے مرج راہط کی طرف فوجیں روانہ کیں۔ ادھر جابیہ میں حسان بن مالک نے امامت کی خدمات انجام دینی شروع کیں اور یہ مسئلہ پیش ہوا‘ کہ پہلے اپنا ایک امیر اور خلیفہ منتخب کر لو‘ عام طور پر خالد بن یزید ہی کا نام لیا جاتا تھا اور اسی کی طرف زیادہ لوگ مائل تھے۔ مروان نے در پردہ لوگوں کو اپنی خلافت کے لیے ترغیب دینی شروع کی اور روح بن زنباع نے مروان کے حسب منشاء آمادہ ہو کر ایک روز مجمع عام میں کھڑے ہو کر اپنی رائے اس طرح پیش کی کہ: ’’خالد بن یزید ابھی نو عمر ہے‘ ہم کو ایک تجربہ کار اور ہوشیار خلیفہ کی ضرورت ہے‘ لہٰذا مروان بن حکم سے بہتر کوئی دوسرا شخص موجود نہیں ہے‘ وہ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے زمانے سے لے کر آج تک برابر خلافت و حکومت کے کاموں کا تجربہ رکھتا ہے‘ مناسب یہ ہے کہ ہم مروان بن حکم کو خلیفہ منتخب کر لیں‘ مگر اس شرط کے ساتھ کہ مروان کے بعد خالد بن یزید خلیفہ بنایا جائے‘ اور خالد بن یزید کے بعد عمرو بن سعید بن عاص کو خلافت سپرد کی جائے‘‘۔ شام میں مروان بن حکم کی بیعت غرض انتخاب خلیفہ کا مسئلہ چالیس روز تک مقام جابیہ میں زیر بحث رہا‘ بالآخر روح بن زنباع کی مذکورہ تجویز عبیداللہ بن زیاد کی تائید و کوشش سے منظور ہوئی‘ اور ۳ ذیقعدہ ۶۴ھ کو مقام جابیہ میں مروان کے ہاتھ پر بنو امیہ‘ بنو کلب اور غسان وطے وغیرہ