تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اور معتز چونکہ دو جدا جدا عورتوں کے پیٹ سے پیدا ہوئے تھے‘ اس لیے دونوں میں رقابت پہلے ہی سے موجود تھی‘ اب جب کہ خلیفہ متوکل نے معتز کو منتصر پر ترجیح دینی چاہی تو منتصر اپنے باپ متوکل کا دشمن بن گیا۔ اس سے چند روز پہلے خلیفہ متوکل نے بغا کبیر‘ وصیف کبیر وصیف صغیر اور دو اجن اشردمنی وغیرہ ترک سپہ سالاروں کی بعض حرکات کے سبب ان سے ناراض ہو کر بعض کی جاگیریں ضبط کر لی تھیں‘ اس لیے ترک متوکل سے ناراض تھے‘ منتصر اور ترکوں نے مل کر متوکل کے قتل کرنے کی سازش کی‘ بغا کبیر اگرچہ بلاد روم کی طرف رخصت کر دیا گیا تھا مگر اس کا بیٹا موسیٰ بن بغا محل سرائے شاہی کی حفاظت و پاسبانی پر مامور تھا۔ بغا صغیر نے منتصر کو اپنا ہم خیال پا کر اپنے چاروں بیٹوں کے ساتھ چند ترکوں کی ایک جماعت کو متوکل کے قتل پر مامور کیا۔ ایک روزرات کو منتصر اور تمام درباری ایک ایک کر کے جب اٹھ آئے اور خلیفہ معہ فتح بن خاقان اور چار دوسرے مصاحبوں کے رہ گیا تو دجلہ کی سمت کے دروازے سے قاتلوں کی مذکورہ جماعت شاہی دربار میں داخل ہو کر خلیفہ پر حملہ آور ہوئی‘ فتح بن خاقان بھی متوکل کے ساتھ مارا گیا‘ ان دونوں لاشوں کو وہیں چھوڑ کر قاتل اپنی خون آلود تلواریں لیے ہوئے رات کو ہی منتصر کے پاس پہنچنے اور خلافت کی مبارک باد دی‘ اسی وقت منتصر سوار ہو کر محل سرائے شاہی میں داخل ہوا اور لوگوں سے بیعت لی۔ وصیف اور دوسرے ترکی سرداروں نے حاضر ہو کر بیعت کی۔ یہ خبر عبیداللہ بن یحییٰ بن خاقان وزیر تک پہنچی تو وہ رات ہی کو معتز کے مکان پر آیا مگر معتز کو ذرا دیر پہلے منتصر اپنے پاس طلب کر کے بیعت لے چکا تھا اور معتز مکان پر موجود نہ تھا‘ عبیداللہ وزیر جب معتز کے مکان پر پہنچا تو فوراً دس ہزار آدمی جمع ہو گئے‘ جن میں ازروی ارمنی اور عجمی تھے ان لوگوں نے متفق اللفظ ہو کر کہا کہ آپ ہم کو اجازت دیں تو ابھی منتصر اور اس کے ہمراہیوں کا خاتمہ کر دیں‘ عبیداللہ نے ان لوگوں کو روک دیا اور کچھ سوچ کر خاموش ہو گیا‘ صبح ہوئی منتصر نے متوکل اور فتح کے دفن کرنے کا حکم دیا‘ یہ واقعہ ۴ شوال ۲۴۷ھ کو وقوع پذیر ہوا۔ خلیفہ متوکل چالیس سال کی عمر میں چودہ برس دس مہینے تین دن خلافت کر کے مقتول ہوا۔ متوکل کے بعض ضروری حالات و اخلاق متوکل علی اللہ نے تخت خلافت پر بیٹھتے ہی اپنا میلان احیاء سنت کی طرف ظاہر کیا‘ ۲۳۴ھ میں تمام محدثین کو دارالخلافہ سامرہ میں مدعو کیا اور بے حد تعظیم و تکریم سے پیش آیا‘ اس سے پیشتر واثق و معتصم کے عہد میں محدثین علانیہ درس نہیں دے سکتے اور رویت الٰہی کے متعلق حدیثیں نہیں بیان کر سکتے تھے‘ متوکل نے حکم دیا کہ محدثین مساجد میں آزادانہ حدیث کا درس دیں اور صفات باری تعالیٰ اور رویت باری تعالیٰ کے متعلق احادیث بیان کریں‘ متوکل کے اس طرز عمل سے مسلمان متوکل سے بہت ہی خوش ہوئے اور مساجد میں درس حدیث جاری ہوئے‘ متوکل نے قبر پرستی کو مٹایا‘ اس لیے شیعہ اس کے دشمن ہو گئے کیونکہ سیدنا حسینu کی قبر پر جو شرکیہ مراسم لوگوں نے شروع کر دئیے تھے ان کو اس نے موقوف کرا دیا گھا۔ ۲۴۰ھ میں اہل خلاط نے ایک ایسی آواز تند آسمان سے سنی کہ بہت سے آدمی اس کے