تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کی وجہ صرف یہ تھی‘ کہ ایک بزرگ صوفی نے اس کو سید (سردار) کہہ کر پکارا تھا‘ جیسے کہ آج کل بھی لوگ مغل اور پٹھان سرداروں کو ’’سیدی‘‘ کہہ کر مخاطب کر لیتے ہیں۔ غرض کہ آج تک کسی ملک میں سادات کی کوئی قابل تذکرہ خود مختار حکومت اور بادشاہت کبھی قائم نہ ہو سکی‘ ایک طرف یہ حقیقت ہمارے سامنے ہے‘ دوسری طرف ہم سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کے ان آخری الفاظ کو دیکھتے ہیں‘ تو بے اختیار ہمارا دل ان الفاظ کی پر عظمت صداقت کا مقر اور ان الفاظ کی ہیبت و شوکت سے مرعوب ہو جاتا ہے۔ خاندان نبوی (سادات) اور خلافت اسلامیہ سیدنا حسن رضی اللہ عنہ نے اپنی وفات کے وقت جو کچھ اپنے بھائی حسین رضی اللہ عنہ سے فرمایا‘ یہ صرف ان ہی کا اجتہاد یا الہام نہ تھا‘ بلکہ صحابہ کرام کی تمام اس جماعت کا‘ جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی صحبت میں زیادہ رہنے کا موقع ملا تھا‘ یہی خیال تھا‘ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے کسی ہاشمی کو نہ کسی صوبہ کی مستقل حکومت عطا فرمائی‘ نہ کسی بڑی فوج کا خود مختار اور ذمہ دار سپہ سالار بنایا‘ جنگ موتہ میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو سپہ سالاری پر نامزد فرمایا‘ مگر اپنے آزاد کردہ غلام زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو ان پر مقدم ۱؎ وہ فاطمی کہلاتے تھے۔ مذہباً وہ شیعہ تھے۔ اس خاندان کو عبیدی خاندان/ عبیدیین بھی کہا جاتا تھا۔ اور فائق رکھا‘ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو چند روز کے لیے یمن کے خراج کی وصولی پر مامور فرمایا‘ مگر یمن کی اعلیٰ حکومت و افسری معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ اور ابو موسیٰ اشعری کو تفویض کی۔ اسی طرح ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے بنو ہاشم کو ذمہ دارانہ عہدوں اور صوبوں کی حکومتوں پر مامور نہیں فرمایا حالاں کہ یہ دونوں اولین خلیفہ بنو ہاشم کی بڑی تعظیم و تکریم بجا لاتے‘ اور ان کی راحت و خوشنودی کا ہمیشہ خیال رکھتے تھے‘ اپنے کاموں میں ان ہی سے مشورہ طلب کرتے‘ اور عموماً انہیں کے مشوروں پر عمل بھی کرتے تھے‘ فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے ایک موقع پر صاف فرما دیا تھا کہ اگر شرف نبوت کے ساتھ ان لوگوں کو حکومت بھی مل گئی‘ تو وہ لوگوں کو اپنے حد سے زیادہ محکوم و مغلوب پا کر غرور قومی میں مبتلا ہو جائیں گے‘ اور اس طرح اسلام کی حقیقی روح کو ضائع کر کے خود بھی ضائع ہو جائیں گے۔ ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ جو شخص عہد جاہلیت کی عقیدت و عصبیت کی طرف ترغیب دلائے وہ واجب القتل ہے۔ پھر ایک مرتبہ فرمایا کہ اگر کسی شخص نے اپنی قرابت داری یا دوستی کی وجہ سے کسی کو امیر یا حاکم بنا دیا‘ حالانکہ مسلمانوں میں اس سے بہتر شخص مل سکتا تھا‘ تو اس نے اللہ تعالیٰ اور رسول اور تمام مسلمانوں کی خیانت کی۔ غرض صرف سیدنا حسن رضی اللہ عنہ ہی کا یہ عقیدہ نہ تھا کہ خاندان نبوت کے لیے شرف نبوت ہی کافی ہے‘ اور اس کے ساتھ شرف حکومت کی جمع نہیں ہونا چاہیئے‘ بلکہ