تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
عجمیوں اور دوسری مفتوح قوموں کو یہ مرتبہ حاصل ہونے لگا کہ وہ عربوں پر حکومت کریں اور عربوں کی کسی فضیلت و خصوصیت میں فاتحانہ عظمت کو تسلیم نہ کریں۔ (۸)عہد بنوامیہ میں اگرچہ خارجی‘ شیعہ اور بعض دوسرے گروہ پیدا ہو گئے تھے لیکن سب کا عمود مذہب اور مداراستدلال قرآن و حدیث کے سوا اور کچھ نہ تھا‘ کتاب و سنت کے سوا کسی تیسری چیز کو قاضی نہ سمجھتے تھے‘ لیکن بعد میں ایسے بہت سے فرقے مسلمانوں میں پیدا ہونے لگے جنہوں نے کتاب و سنت کو پس پشت ڈال کر اپنے پیروں‘ مرشدوں‘ اماموں اور صاحب گروہ علماء کے اقوال و اجتہاد کی پیروی کو کافی سمجھا‘ یہی وجہ تھی کہ خلافت بنوامیہ کے زمانہ میں مسلمانوں کی تمام تر توجہ قرآن مجید اور سنت رسول اللہ کی طرف منعطف رہی اس کے بعد قرآن مجید کی طرف سے مسلمانوں نے کم التفاتی و غفلت کا برتائو شروع کیا اور یہ نحوست یہاں تک ترقی پزیر ہوئی کہ آج ہمارے زمانہ میں ایک واعظ اور ایک فارغ التحصیل مولوی کے لیے بھی یہ ضروری نہیں سمجھا جاتا کہ وہ قرآن مجید کو ترتیل و تدبر کے ساتھ پڑھ اور سمجھ چکا ہو۔ (۹)خلافت راشدہ میں اعلیٰ درجہ کی کامیابی اور فتح یہ سمجھی جاتی تھی کہ لوگ شرک و گمراہی سے نجات پاکر توحید اور عبادت الہٰی کی طرف متوجہ ہو جائیں اور مذہب اسلام لوگوں کا دستورالعمل زندگی بن جائے‘ مال و دولت اور مادی شان و شوکت کی کوئی قدر و قیمت اور عزت و وقعت نہ تھی‘ لیکن خلافت بنوامیہ میں مال و دولت اور شان و شوکت کو کامیابی سمجھا جانے لگا اور بیت المال کا روپیہ ان لوگوں کے لیے زیادہ صرف ہونے لگا‘ جو خلافت و سلطنت یعنی خاندان بنی امیہ کے لیے موجب تقویت اور مفید ثابت ہو سکتے تھے جن لوگوں سے بنوامیہ کو کسی امداد و اعانت کی توقع نہ ہوتی تھی یا جن کا خوش رکھنا وہ اپنے لیے ضروری نہ سمجھتے تھے‘ ان کی طرف سے بے التفاتی برتی جاتی تھی اور ان کے حقوق ان کو نہ ملتے تھے‘ یہ رسم بد بعد کی خلافتوں میں اور بھی زیادہ ترقی کر گئی تھی‘ اسی نسبت سے عام طور پر مسلمانوں میں اغراض پرستی اور باہمی رقابت بڑھتی چلی گئی (۱۰) ابتدائے اسلام اور خلافت راشدہ کے زمانہ میں مسلمانوں کی زندگی نہایت سادہ اور ان کی ضروریات زندگی بہت ہی محدود تھیں‘ عہد بنوامیہ میں سامان عیش کا استعمال شروع ہوا اور وہ سپاہیانہ انداز جو پہلے موجب فخر تھا بتدریج مٹتے مٹتے بالکل دور ہونے لگا‘ خوبصورت لباس‘ پرتکلف مکانات اور زیب و زینت کے سامان ضروریات زندگی میں داخل ہونے لگے اور اسی نسبت سے مسلمانوں کے اندر صدیق و فاروق اور خالد و ضرار رضی اللہ عنہ کے نمونے کم نظر آنے لگے۔ عہد بنوامیہ میں صوبوں کی تقسیم عہد بنوامیہ میں کل ممالک اسلامی چند صوبوں میں تقسیم تھے‘ ہر صوبہ پر ایک امیر یا وائسرائے یا نائب سلطنت مقرر ہوتا تھا‘ اس کو اپنے صوبہ میں کامل شاہانہ اختیارات حاصل ہوتے تھے اور وہ خود ہی اپنی طرف سے اپنے صوبہ کی ولایتوں میں حاکم مقرر کرتا تھا‘ بڑے بڑے صوبے حجاز‘ عراق‘ جزیرہ‘ آرمینیا‘ شام‘ مصر‘ افریقہ‘ اندلس‘ خراسان وغیرہ تھے۔ حجاز کے صوبہ میں مکہ‘ مدینہ‘ طائف‘ یمن کی ولایتیں شامل تھیں‘ کبھی ایسا ہوتا تھا کہ یمن کو حجاز کی ماتحتی سے نکال کر ایک الگ صوبہ قرار دے دیا جاتا تھا اور وہاں کا حاکم دارالخلافہ سے مقرر ہوتا تھا۔