تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
دوسرے کی تحریک کے علی رضا کے بھائی کو یمن کی گورنری دی اور امیر الحج مقرر کیا۔ جس شخص کو وہ زہر دے کر مروا ڈالنا چاہتا تھا اس کے ساتھ یہ احسانات نہیں کر سکتا تھا۔ پھر سب سے بڑھ کر یہ کہ جس شخص کو اس نے خود زہر دلوا کر مروا ڈالا تھا اس کو اپنے باپ کی قبر میں دفن نہیں کر سکتا تھا۔ ہارون الرشید کی قبر میں ان کو دفن کرنا مامون کی سچی عقیدت کا ایک زبردست ثبوت ہے‘ جس میں کسی منافقت اور بناوٹ کو دخل نہیں ہو سکتا۔ ان کی وفات پر مامون کا اظہار ملال بھی اس بات کا ایک ثبوت ہے۔ اس بات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ مامون الرشید نے آئندہ اپنی حکومت و خلافت میں علویوں کے ساتھ ہمیشہ نیک سلوک کیا اور ان کو بڑے بڑے عہدوں پر مامور کرتا رہا۔ جو دلیل اس بات کی ہے کہ مامون الرشید کو علویوں سے کوئی نفرت نہ تھی اور وہ علویوں کو بہتر حالت میں لانا اور ان پر احسان کرنا چاہتا تھا۔ اگر اس نے علی رضا کو زہر دلوایا ہوتا تو وہ آئندہ علویوں کے ساتھ اس طرز عمل کو جاری نہیں رکھ سکتا تھا‘ ہاں یہ ممکن ہے کہ بنو عباس یا ان کے ہوا خواہوں میں سے کسی نے امام علی رضا کو انگوروں میں زہر دیا ہو۔ کیونکہ بنو عباس علی رضا کی ولی عہدی کے معاملے میں مامون الرشید سے ناراض تھے۔ امام علی رضا نے بہ عمر ۵۵ سال ماہ صفر ۲۰۳ھ میں وفات پائی۔ وہ ۱۴۸ھ میں مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے تھے۔ مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے تھے۔ طاہر بن حسین کی باریابی طاہر بن حسین بن مصعب بن زریق بن ماہان کا حال اوپر مذکور ہو چکا ہے۔ زریق سیدنا طلحہ بن عبیداللہ کا غلام تھا۔ یہ وہی طلحہ بن عبیداللہ خزاعی تھے جو طلحہ الطلحات کے نام سے مشہور تھے‘ زریق کا بیٹا مصعب بن زریق بنو عباس کے نقیب سلیمان بن کثیر کا کاتب اور آخر میں ہرات کا امیر تھا۔ مصعب کا بیٹا طاہر بن حسین ۱۵۹ھ میں علاقہ مرو میں پیدا ہوا تھا۔ طاہر کو فضل بن سہل نے رقہ کی حکومت دے کر نصر بن شیث کے مقابلہ پر مامور کیا تھا۔ نصر بن شیث نے حلب اور اس کے شمالی علاقوں پر خود مختارانہ قبضہ کر رکھا تھا۔ طاہر کو قتل امین اور فتح بغداد کے بعد چونکہ کوئی صلہ حسب توقع نہ ملا اور فضل بن سہل نے اس کی کوئی ہمت افزائی نہ ہونے دی۔ اس لیے وہ رقہ میں مقیم رہ کر نہایت بے دلی کے ساتھ نصر بن شیث کے مقابلہ میں مصروف رہا مگر کوئی توجہ اور سرگرمی نہیں دکھائی‘ نصر بن شیث خود اعلان کر چکا تھا کہ میں صرف اس لیے مامون کی اطاعت نہیں کرنا چاہتا کہ اس نے عربوں پر عجمیوں کو ترجیح دی ہے‘ اس لیے بھی طاہر نصر بن شیث کو زیادہ برا نہیں جانتا تھا۔ اب جبکہ مامون کو حالات سے واقفیت حاصل ہوئی اور وہ بغداد کی طرف روانہ ہوا تو اس نے طاہر بن حسین کو بھی لکھا کہ بغداد پہنچنے سے پہلے مقام نہروان میں تم ہم سے آ کر ملو۔ مامون طوس سے روانہ ہو کر جرجان پہنچا۔ یہاں بھی ایک مہینے سے زیادہ مقیم رہا۔ اسی طرح کوچ مقام کرتا ہوا نہروان پہنچا۔ یہاں طاہر بن حسین بھی رقہ میں اپنے بھتیجے اسحٰق بن ابراہیم بن حسین کو اپنا قائم مقام بنا کر آیا اور مامون کی خدمت میں حاضر ہوا۔ جوں جوں مامون بغداد سے قریب ہوتا گیا‘ ابراہیم بن مہدی کی حکومت و خلافت کو زوال آتا گیا۔ یہاں تک کہ اس کے بغداد میں داخل ہونے سے پہلے ہی ابراہیم بن مہدی کی خلافت کا خاتمہ ہو چکا تھا۔ اور وہ روپوش ہو کر بغداد میں چھپتا پھرتا تھا۔