تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کرنے کا بھی اختیار چونکہ وزیراعظم ہی کو حاصل تھا اس لیے اور بھی اراکین سلطنت کو مقتدر کی خلافت ناگوار تھی‘ ادھر وزیراعظم بھی اس لڑکے کی خلافت سے خوش نہ تھا۔ چنانچہ ابو عبداللہ محمد بن معتز کو خلافت پر آمادہ کیا‘ ابھی مقتدر کے معزول اور محمد معتز کے تخت نشین کرنے کے مشورے اور تیاریاں ہو رہی تھیں کہ ابو عبداللہ محمد بن معتز کا انتقال ہو گیا‘ اس کے بعد ابو الحسین بن متوکل کو تخت نشین کرنے کا انتظام کیا گیا‘ اتفاق کی بات کہ ابوالحسین بھی فوت ہو گیا‘ اس کی اور ابو عبداللہ محمد بن معتز کی وفات کی وجہ سے خلیفہ مقتدر کی حکومت کو ایک قسم کا استحکام حاصل ہو گیا۔ چند روز کے بعد پھر سرگوشیاں شروع ہوئیں اور اراکین سلطنت نے عبداللہ بن معتز کو تخت خلافت کے لیے آمادہ کرنا چاہا‘ عبداللہ بن معتز نے اس شرط کے ساتھ منظور کیا کہ خون ریزی نہ ہو‘ تمام اراکین سلطنت اس تجویز میں شریک تھے‘ مگر وزیراعظم عباس بن حسین اس میں شریک نہ تھا ۲۰ ربیع الاول ۲۹۶ھ کو سب سے پہلے وزیر اعظم کو جب کہ وہ اپنے باغ کو جا رہا تھا دفعتاً حملہ کر کے قتل کر دیا گیا‘ اگلے دن ۲۱ ربیع الاول ۲۹۶ھ کو مقتدر کی معزولی کا اعلان کر کے عبداللہ بن معتز کی بیعت سب نے کر لی‘ اس وقت خلیفہ مقتدر چوگان کھیل رہا تھا‘ اپنی معزولی کا حال سنتے ہی فوراً محل سرائے میں چلا گیا اور دروازے بند کر لیے۔ عبداللہ بن معتز نے تخت پر بیٹھتے ہیں اپنا لقب المرتضیٰ باللہ تجویز کیا اور مقتدر کو لکھ بھیجا کہ تمہاری خیریت اسی میں ہے کہ دارالخلافہ چھوڑ کر باہر آ جائو اور خلافت کی ہوس ترک کر دو‘ مقتدر نے لکھا کہ مجھ کو آپ کے ارشاد کی تعمیل بسر و چشم منظور ہے مگر شام تک کی مہلت عطا کر دو۔ رات کو مونس خادم سے دوسرے خدام نے مشورہ کیا کہ کوئی ہنگامہ برپا کرنا چاہیئے‘ صبح کو حسین بن حمدان قصر خلافت کے دروازہ پر پہنچا تو انہوں نے تیروں کا مینہ برسایا‘ شام تک مقتدر کے غلاموں نے یہی سلسلہ جاری رکھا‘ رات کو بتدریج اور لوگ بھی مقتدر کی جمعیت میں شامل ہوتے گئے‘ نتیجہ یہ ہوا کہ عبداللہ بن معتز جدید خلیفہ کو معہ اپنے چند ہوا خواہوں کے روپوش ہونا پڑا‘ مقتدر نے مونس خادم کو پولس کی افسری عطا کر کے فتنہ کے فرو کرنے کا حکم دیا‘ ابو الحسن بن فرات کو وزیراعظم بنایا‘ عبداللہ بن معتز گرفتار ہو کر مقتول ہوا۔ اسی سال یعنی ربیع الثانی ۲۹۶ھ میں عبیداللہ مہدی کی بیعت افریقہ میں ہوئی اور دولت عبید یہ شیعیہ امامیہ کی ابتداء ہو کر افریقہ میں دولت اغالبہ کا خاتمہ ہوا‘ اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ دولت عبیدیہ کے آغاز اور دولت اغالبہ کے اختتام کا حال اس جگہ بیان کر دیا جائے۔ دولت عبیدیہ کا آغاز ! عبیداللہ مہدی سب سے پہلا بادشاہ اپنے آپ کو محمد بن جعفر بن محمد بن اسماعیل بن جعفر صادق کا بیٹا بتاتا تھا‘ لیکن اس کے نسب میں لوگوں نے سخت اختلاف کیا ہے‘ مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ مجوسی تھا‘ بعض نے اس کو نصرانی کہا ہے۔ شیخ المناظرین قاضی ابوبکر با قلانی نے بھی عبیداللہ مہدی کے سید یعنی عالی نسب ہونے سے انکار کیا ہے‘ مشاہیر علماء نے خلیفہ قادر باللہ کے عہد میں جب کہ اس کے نسب کا مسئلہ زیر غور تھا صاف طور پر عبیداللہ مہدی کو اپنے دعویٰ علویت میں کاذب قرار دیا تھا‘ ان علماء میں ابو العباس ابیوزہ‘ ابو حامد اسفرائنی‘ ابو جعفر نسفی‘ قدری