تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
کو اہل بیت سے نسبت کرتے تھے۔ ۳۴۶ھ میں رے اور نواح رے میں زلزلہ عظیم عظیم آیا‘ طالقان خسف ہو گیا کل تیس آدمی بچ سکے باقی سب ہلاک ہو گئے۔ رے کے نواح میں ڈیڑھ سو گائوں زمین میں دھنس گئے‘ شہر خلوان کا اکثر حصہ زمین میں غرق ہو گیا۔ ۳۴۷ھ میں دوبارہ اسی شدت کا زلزلہ آیا۔ اسی سال معز الدولہ نے موصل پر چڑھائی کی کیونکہ ناصر الدولہ سے خراج بھیجنے میں تاخیر ہوئی تھی‘ ماہ جمادی الاول ۳۴۷ھ میں موصل پر قبضہ کیا۔ ناصر الدولہ نصیبین چلا گیا‘ معز الدولہ نے موصل میں سبکتگین اپنے حاجب کبیر کو چھوڑ کر خود نصیبین کا قصد کیا‘ ناصر الدولہ وہاں سے اپنے بھائی سیف الدولہ کے پاس حلب چلا گیا‘ سیف الدولہ نے معز الدولہ سے خط و کتابت کر کے صلح کی کوشش کی اور ماہ محرم ۳۴۸ھ میں صلح نامہ لکھا گیا۔ اور معز الدولہ عراق کی جانب واپس آیا۔ ۳۵۰ھ میں معز الدولہ نے بعذاد میں اپنے لیے ایک بہت بڑا قصر تعمیر کرایا جس کی نبیا دیں چھتیس گزر کھی گئی تھیں۔ اسی سال رومیوں نے جزیرہ افریطش (کریٹ) کو مسلمانوں کے قبضے سے چھین لیا‘ یہ جزیرہ ۲۳۰ھ سے مسلمانوں کے قبضے میں چلا آتا تھا۔ معز الدولہ کی ایک اور لعنتی کاروائی ۳۵۱ھ میں معز الدولہ نے جامع مسجد بغداد کے دردازے پر نعوذ باللہ نقل کفر کفر نباشد یہ عبارت لکھوا دی ’’لعن اللہ معاویۃ بن سفیان۱؎ و من غصب فاطمۃ فد کا و من صلح عن وفن الحسن عند جدہ و من نفی اباذر و من اخرج العباس عن الشوری۔ ۱؎ سبائی گروہ کے باطل مذہب کا حصہ ہے کہ وہ سوائے تین چار صحابہ رضی اللہ عنھم کے باقی تمام صحابہ رضی اللہ عنھم کو منافق کہتے ہیں اور ان پر تبرا کرتے یعنی ان کو گالی گلوچ کرتے ہیں‘ استغفراللہ‘ معاذ اللہ! حالانکہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے واضح طور پر سختی سے متنبہ فرما دیا تھا کہ میرے صحابہ رضی اللہ عنھم کو برا نہ کہنا۔ قابل غور مقام ہے کہ ہم مسلمانوں کو تو یہ دین اسلام صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے ذریعہ سے ملا ہے۔ معاذ اللہ! اگر وہ سیدھے راستہ پر نہ تھے تو پھر یہ پورا دین ہی مشکوک ہو جاتا ہے۔ ہم سبائی گروہ کے اس باطل عقیدہ و فکر سے اللہ کی پناہ طلب کرتے ہیں۔ عید غدیر کی ایجاد معز الدولہ نے ۱۸ ذی الحجہ ۳۵۱ھ کو بغداد میں عید منانے کا حکم دیا اور اس عید کا نام عید خم غدیر رکھا‘ خوب ڈھول بجائے گئے اور خوشیاں منائی گئیں‘ اسی تاریخ کو یعنی ۱۸ ذی الحجہ ۳۵۱ھ کو سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ چونکہ شہید ہوئے تھے لہٰذا اس روز شیعوں کے لیے خم عدیر کی عید منانے کا دن تجویز کیا گیا۔ احمد بن بویہ دیلمی یعنی معز الدولہ کی اس ایجاد کو جو ۳۵۱ھ میں ہوئی شیعوں نے یہاں تک رواج دیا کہ آج کل کے شیعوں کا یہ عقیدہ ہے کہ عید غدیر کا مرتبہ عیدالاضحیٰ سے بھی زیادہ بلند ہے۔ تغریہ داری کی ایجاد ۳۵۲ھ کے شروع ہونے پر ابن بویہ مذکور نے حکم دیا کہ ۱۰ محرم کو سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے غم میں تمام دوکانیں بند کر دی جائیں‘ بیع و شرا بالکل موقوف رہے‘ شہر و دیہات کے تمام لوگ ماتمی لباس پہنیں اور اعلانیہ نوحہ کریں‘ عورتیں اپنے بال کھولے ہوئے‘ چہروں کو سیاہ کیے ہوئے‘ کپڑوں کو پھاڑے ہوئے‘ سڑکوں اور بازاروں میں مرثیے پڑھتی‘ منہ نوچتی اور چھاتیاں پٹتی ہوئی نکلیں۔ شیعوں