تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
فہرست پیش کرنا مقصود ہے۔ وزیراعظم ابتداء خلیفہ کا ایک ہی وزیر ہوتا تھا اور وہ ہر اعتبار سے خلیفہ کا نائب یا قائم مقام اور تمام صیغوں کا افسر ہوتا تھا‘ بعد میں جب یہ معلوم ہوا کہ ایک شخص محکموں کی پوری ذمہ داری نہیں لے سکتا تو وزیراعظم کے ماتحت الگ الگ صیغوں کے وزیر بھی مقرر ہونے لگے‘ وزیراعظم کو ابتدائی خلفاء کے عہد میں صرف وہی اختیارات حاصل ہوتے تھے جو خلیفہ تفویض کر دیتا تھا‘ بہت سے معاملات ایسے ہوتے تھے جن کو کرنے کا اختیار خلیفہ کے سوا کسی دوسرے کو نہ ہوتا تھا‘ ہاں وزیر اعظم خلیفہ کو مشورہ دے سکتا تھا‘ اس قسم کے مشورے لینے میں صرف وزیراعظم ہی نہیں بلکہ دوسرے اراکین سلطنت کو بھی خلیفہ تکلیف دیا کرتا تھا۔ بعض خلیفہ مثلاً ہارون الرشید نے اپنے وزیراعظم کو سلطنت کے ہر ایک معاملہ میں کلی اختیارات عطا کر دئیے تھے‘ وزیراعظم ہی ہر قسم کے احکام جاری کر دیتا اور خلیفہ کو اپنے جاری کردہ اہم احکام کی صرف اطلاع دیتا تھا‘ ایسے بااختیار وزیروں کا مرتبہ بہت ہی بلند ہوتا تھا اور وہ درحقیقت خلیفہ سے بھی زیادہ سیاہ و سفید کے مالک سمجھے جاتے تھے۔ بعد میں جب خلفاء بہت کمزور ہونے لگے اور دیلمی امیر الامراء یا سلجوقی سلاطین خلافت پر مسلط ہو گئے‘ خلیفہ کا وزیراعظم الگ ہوتا اور ان سلاطین کا وزیراعظم جدا ہوتا تھا‘ اس زمانہ میں خلیفہ کی وزارت کوئی بہت بڑی چیز نہیں سمجھی جاتی تھی‘ اس دو عملی کے زمانے میں بعض اوقات خلیفہ کے وزیر کو رئیس الرئوساء اور سلطان کے وزیر کو وزیر کہتے تھے‘ بعض اوقات خلیفہ کے وزیر کو خلیفہ سے زیادہ اختیارات حاصل ہوتے تھے اور جب کہ خلیفہ کا وزیر سلطان نے مقرر کیا ہو تو خلیفہ اپنے وزیر کا قیدی ہوتا تھا۔ وزیر اعظم کا انتخاب عموماً خلیفہ اپنی ذاتی واقفیت کی بنا پر کرتا تھا اور بعض اوقات وہ نہایت معمولی طبقہ میں سے ایک شخص کو خلعت وزارت دے کر سب سے اعلیٰ مقام پر پہنچا دیتا تھا اور کبھی ایک وزیر کے بعد اس کے بیٹے کو وزارت کا عہدہ دیا جاتا تھا‘ جعفر برمکی وزیر ہارون الرشید فضل وزیر مامون الرشید‘ نظام الملک وزیر الپ ارسلان و ملک شاہ بہت مشہور وزیر ہیں۔ امیر الامراء یہ عہدہ خلفاء عباسیہ کے دور انحطاط و تنزل میں قائم ہوا اور لوگوں نے خلیفہ پر مسلط ہو کر امیر الامراء کا خطاب خود اپنے لیے تجویز کر کے خلیفہ سے حاصل کیا‘ یہ امیر الامراء حقیقتاً عراق و فارس و خراسان کے فرماں روا تھے اور تمام عہدے دار انہیں کے ماتحت اور انہیں کے مقرر کیے ہوئے ہوتے تھے۔ خلیفہ تو صرف نام یا برائے بیعت ہی ہوتا تھا‘ دیلمیوں کا زمانہ قریباً سو برس تک رہا اور وہ امیر الامراء کہلاتے تھے۔ سلطان جس طرح دیلمیوں نے امیر الامراء اپنا خطاب تجویز کیا‘ اسی طرح سلجوقیوں نے اپنے لیے سلطان کا خطاب پسند کیا‘ یہ سلجوقی سلاطین دیلمیوں سے زیادہ طاقتور‘ زیادہ دین دار اور دنیا کے زیادہ وسیع رقبہ پر حکمران تھے‘ مگر دیلمیوں کی نسبت خلیفہ کے زیادہ فرماں بردار تھے‘ دیلمیوں نے دربار خلافت کے تمام اثر و اقتدار کو سلب کر لیا تھا‘