تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
بجلی گری اور دو آدمی سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنھما کی فوج کے بھی اس کے صدمے سے فوت ہو گئے‘ اس سے حجاج کو بڑی خوشی ہوئی‘ اور اس کے لشکر والوں کو بھی کچھ اطمینان ہوا‘ حجاج نے خود اپنے ہاتھ سے منجنیق پر پتھر رکھ رکھ کر پھینکنے شروع کئے اس کے بعد تمام لشکر کا خوف جاتا رہا‘ اور زور شور سے سنگ باری شروع ہو گئی۔ سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنھما خانہ کعبہ میں نماز پڑھتے تھے اور بڑے بڑے پتھر ان کے ارد گرد آ آکر گرتے تھے‘ لیکن ان کی توجہ الی اللہ اور نماز کے خشوع و خضوع میں رتی برابر فرق نہیںآتا تھا۔ یہ محاصرہ اسی شدت سے برابر جاری رہا‘ مکہ معظمہ میں باہر سے کسی قسم کی امداد و سامان رسد نہیں پہنچ سکتا تھا‘ نوبت یہاں تک پہنچی‘ کہ سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنھما نے اپنا گھوڑا ذبح کر کے لوگوں میں تقسیم کر دیا‘ سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنھما کے پاس غلہ اور کھجوروں کا ایک ذخیرہ موجود تھا‘ وہ اس ذخیرہ میں سے صرف اس قدر لوگوں کو تقسیم کرتے تھے‘ جس سے حیات باقی رہے‘ مدعا انکا یہ تھا‘ کہ ہم دیر تک محاصرین کے مقابلہ پر قائم رہ سکیں۔ حجاج نے جب یہ دیکھا کہ کوئی تدبیر کارگر نہیں ہوتی ہے‘ تو اس نے سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنھما کے ہمراہیوں کے پاس امان نامے لکھ لکھ کر بھیجنے شروع کر دیئے‘ یہ امان نامہ والی تدبیر کارگر ثابت ہوئی اور بہت سے آدمی سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنھما کا ساتھ چھوڑ چھوڑ کر حجاج کے پاس چلے آئے بہت ہی تھوڑے سے آدمی سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنھما کے پاس رہ گئے‘ حتی کے ان کے دو لڑکے حمزہ و حبیب بھی باپ کو چھوڑ کر حجاج کے پاس آگئے‘ تیسرا لڑکا باپ کے ساتھ رہا اور آخر وقت تک داد مردانگی دیتا رہا‘ حتی کہ عین معرکہ کار زار میں کام آیا۔ جب سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنھما کے پاس سے ہزاروں آدمی حجاج کے پاس آگئے‘ اور معدودے چند شخص باقی رہ گئے تو حجاج نے اپنے لشکر کو ایک جگہ جمع کر کے اس طرح تقریر کی کہ: ’’تم لوگ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنھما کا اندازہ کر چکے ہو‘ ان کے ہمراہی اس قدر تھوڑے ہیں‘ کہ اگر تم میں سے ہر شخص ان پر ایک ایک مٹھی کنکریاں پھینکے تو وہ سب کے سب مر جائیں‘ پھر لطف یہ کہ وہ بھوکے پیاسے ہیں‘ اے شامی و کوفی دلاورو بڑھو‘ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنھما چند ساعت کا مہمان ہے‘‘۔ اس تقریر سے پیشتر حجاج عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنھما کی خدمت میں ایک خط بھیج چکا تھا‘ اس میں لکھا تھا کہ ’’اب آپ کے پاس کوئی طاقت نہیں رہی‘ آپ ہر طرح مجبور ہو چکے ہیں‘ بہتر یہی ہے‘ کہ آپ ہماری امان میں آجائیں‘ اور امیر المومنین عبدالملک کی بیعت اختیار کر لیں‘ آپ کے ساتھ انتہائی عزت و تکریم کا برتائو کیا جائے گا اور آپ کی ہر ایک خواہش پوری کر دی جائے گی‘ مجھ کو امیر المومنین نے یہی حکم دیا ہے‘ کہ میں جہاں تک ممکن ہو آپ کو صلح و آشتی کی طرف متوجہ کروں‘ اور آپ کے قتل میں حتی الامکان عجلت سے کام نہ لوں۔ شہادت ابن زبیر رضی اللہ عنھما سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنھما اس خط کو پڑھ کر اپنی ماں سیدنا اسماء بنت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور عرض کیا کہ: