تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
بہادروں کی جاں فروشی کے افسانے تھوڑی دیر کے لیے ہماری رگوں میں خون کے دوران کو بڑھادیتے ہیں لیکن ہم اپنی آنکھوں سے کوئی ایسا میدان نہیں دیکھ سکتے‘ جہاں سر تلواروں سے کٹ کٹ کر گر رہے ہوں‘ نیزے سینوں کو چھید چھید کر پار نکل رہے ہوں‘ گردنوں سے خون کے فوارے نکل رہے ہوں‘ لاشیں خون کی کیچڑ میں تڑپ رہی ہوں‘ گھوڑوں کی ٹاپوں میں کچل کچل کر لاشوں کے قیمے بن رہے ہوں‘ کٹے ہوئے سر فٹ بال کی طرح گھوڑوں کی ٹھوکروں سے ادھر ادھر لڑھک رہے ہوں‘ گرد و غبار میں آفتاب چھپ گیا ہو‘ تکبیر کے نعرے بلند ہو رہے ہوں‘ مردان با اللہ تعالیٰ اپنے محبوب حقیقی کا بول بالا کرنے کے لیے اپنی جانیں قربان کرنے میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنا چاہتے ہوں اور اللہ تعالیٰ کی رحمت نے اس خوش فضا نظارے کا احاطہ کر لیا ہو۔ یہ مسرت افزاء اور دل فریب نظارے طلحہ رضی اللہ عنہ و زبیر ضض‘ خالد رضی اللہ عنہ و ضرار ضض‘ شرجیل رضی اللہ عنہ و عبدالرحمن ضض‘ حسین بن علی رضی اللہ عنھما ‘ و عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنھما طارق بن زیاد‘ محمد بن قاسم‘ محمد خاں ثانی‘ سلیمان اعظم‘ صلاح الدین ایوبی حح‘ و نورالدین زنگی‘ محمود غزنوی‘ و شہاب الدین غوری کے حصے میں آئے تھے ہم ضعیف الایمان و بزدل لوگوں کی ایسی قسمت کہاں تھی‘ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے تلواروں‘ نیزوں اور تیروں کو بے کار کر کے ان کی جگہ توپوں‘ بندوقوں اور ہوائی جہازوں کو دنیا میں بھیج دیا ہے‘ کیوں کہ قلب کی قوت‘ ارادے کی پختگی‘ ہمت و حوصلے کی بلندی‘ یعنی ایمان کامل کے اظہار کا مظہر جس خوبی سے تلوار کی دھار بن سکتی تھی‘ بارود کا شعلہ نہیں بن سکتا تھا۔ سرزمین کوفہ اب تک جس قدر حالات بیان ہو چکے ہیں‘ ان سب کے مطالعہ سے کوفہ اور اہل کوفہ کی نسبت قلب میں عجیب عجیب قسم کے خیالات پیدا ہو جاتے ہیں اور کوفہ روئے زمین کی ایک عجیب بستی نظر آنے لگتی ہے‘ عبداللہ بن سبا اور ہر ایک سازشی گروہ کو کوفہ میں کامیابی حاصل ہوئی‘ اہل کوفہ ہی سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے قتل میں پیش پیش تھے‘ اہل کوفہ ہی سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے سب سے زیادہ فدائی و شیدائی نظر آتے تھے۔ پھر اہل کوفہ ہی نے سب سے زیادہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو پریشان کیا‘ اور وہی ان کی بہت سی ناکامیوں کا باعث بنے۔ اہل کوفہ ہی نے سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کو آزار پہنچایا‘ پھر اہل کوفہ ہی خون علی رضی اللہ عنہ کے مطالبہ اور خلافت حسین رضی اللہ عنہ کے لیے آمادہ ہوئے‘ آخر اہل کوفہ ہی سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا باعث بنے اور انہوں نے بڑی بے دردی سے کربلا کے میدان میں ان کو قتل کرایا۔ اس کے بعد اہل کوفہ ہی نے خون حسین رضی اللہ عنہ کا معاوضہ لینے پر سب سے بڑھ کر آمادگی واستادگی اختیار کی اور حیرت انگیز طور پر اپنی محبت کا ثبوت پیش کیا‘ پھر اہل کوفہ ہی تھے جنہوں نے اہل بیت کے سب سے بڑے حامی مختار بن عبید کے خلاف کوشش کی اور مصعب بن زبیر کو کوفہ پر حملہ آور کروا کر مختار کو قتل کرایا‘ اس کے بعد اہل کوفہ ہی تھے جو معصب بن زبیر رضی اللہ عنھما کے قتل کا باعث ہوئے۔ اہل کوفہ نے اپنی انتہائی شجاعت اور حیرت انگیز بہادریوں کے نمونے بھی دکھائے‘ اور ساتھ ہی ان کی انتہائی بزدلی و نامردی کے واقعات بھی ہم مطالعہ کر چکے ہیں‘ کبھی انہوں نے اپنے آپ کو نہایت بے جگری کے ساتھ قتل کرایا‘ اور کوفہ کے حاکموں کی علی