تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
پر ابومسلم کے قابض ہو جانے میں سب سے زیادہ اس بات کو دخل تھا کہ شیعان علی رضی اللہ عنہ اور شیعان بنوعباس رضی اللہ عنہ مل کر کام کر رہے تھے اور متفقہ طاقت کے ساتھ مصروف عمل تھے‘ اگر اس مجلس میں بنوعباس اور علویوں کے درمیان اختلاف پیدا ہو جاتا تو مکہ سے لے کر خراسان کے آخری سرے تک تمام علاقے میں اختلاف کی ایک لہر ایسی سرعت کے ساتھ دوڑ جاتی کہ پھر اس کی روک تھام قابو سے باہر ہوتی اور خلافت بنو امیہ میں جو مردہ ہو چکی تھی‘ ازسر نوجان پڑجاتی‘ مگر ابوجعفر منصور کی ہوشیاری و دانائی نے اس موقعہ پر بڑا کام کیا اور شیعان علی پہلے سے بھی زیادہ جوش کے ساتھ مصروف عمل ہو گئے اور ان کی یہ تمام کوششیں عباسیوں کے لیے زیادہ مفید ثابت ہوئیں۔ ابومسلم خراسانی ابومسلم کا نام ابراہیم بن عثمان بن بشار تھا‘ یہ ایرانی النسل تھا اور مشہور ہے کہ برز جمہر کی اولاد سے تھا‘ اصفہان میں پیدا ہوا تھا ماں باپ نے کوفہ کے متصل ایک گائوں میں آکر سکونت اختیار کرلی تھی‘ جس وقت ابومسلم کا باپ عثمان فوت ہوا تھا تو ابومسلم کی عمر سات برس کی تھی‘ اس کا باپ مرتے وقت وصیت کر گیا تھا کہ عیسیٰ بن موسیٰ بن سراج اس کی پرورش اور تربیت کرے‘ عیسیٰ اس کو کوفہ میں لے آیا‘ ابومسلم جامہ دوزی کا کام عیسیٰ سے سیکھتا تھا اور اسی کے پاس کوفہ میں رہتا تھا۔ عیسیٰ بن موسیٰ اپنے زین اور چار جامے لیکر خراسان‘ جزیرہ اور موصل کے علاقوں میں فروخت کرنے کے لیے جاتا تھا‘ اور اس تقریب سے اکثر سفر میں رہتا اور ہر طبقہ کے آدمیوں سے ملتا تھا‘ اور اس کی نسبت یہ شبہ ہوا کہ یہ بھی بنوہاشم اور علویوں کا نقیب ہے‘ اسی طرح اس کے خاندان کے دوسرے آدمیوں پر شبہ کیا گیا‘ نتیجہ یہ ہوا کہ یوسف بن عمر گورنر کوفہ نے عیسیٰ بن موسیٰ اور اس کے چچازاد بھائی ادریس بن معقل اور ان دونوں کے چچا عاصم بن یونس عجلی کو قید کر دیا‘ اسی قیدخانہ میں خالد قسری کے گرفتار شدہ عمال بھی قید تھے۔ ابومسلم قیدخانہ میں عیسیٰ بن موسیٰ کی وجہ سے اکثر جاتا جہاں تمام قیدی وہ تھے جن کو حکومت بنوامیہ سے نفرت تھی یا قید ہونے کے بعد لازماً نفرت پیدا ہو جانی چاہئے تھی‘ ان ہی میں بعض ایسے قیدی بھی تھے جو واقعی بنوعباس یا بنو فاطمہ کے نقیب تھے‘ لہٰذا ان لوگوں کی باتیں سن کر ابومسلم کے قلب پر بہت اثر ہوا اور وہ بہت جلد ان لوگوں کا ہمدرد بن کر ان کی نگاہوں میں اپنا اعتبار قائم کر سکا‘ اتفاقاً قحطبہ بن شبیب جو امام ابراہیم کی طرف سے خراسان میں کام کرتا اور لوگوں کو خلافت عباسیہ کے لیے دعوت دیتا تھا خراسان سے حمیمہ کی طرف جا رہا تھا‘ راستے میں کوفہ کے ان قیدیوں سے بھی ملا‘ یہاں اسے معلوم ہوا کہ عیسیٰ و عاصم وغیرہ کا خادم ابومسلم بہت ہوشیار اور جوہر قابل ہے‘ اس نے عیسیٰ سے ابومسلم کو مانگ لیا اور اپنے ساتھ لے کر حمیمہ کی طرف روانہ ہو گیا‘ وہاں امام ابراہیم رحمہ اللہ تعالی کی خدمت میں ابومسلم کو پیش کیا‘ امام ابراہیم نے ابومسلم سے پوچھا کہ تمہارا نام کیا ہے‘ ابومسلم نے کہا کہ میرا نام ابراہیم بن عثمان بن بشار ہے‘ امام ابراہیم نے کہا نہیں تمہارا نام عبدالرحمن ہے‘ چنانچہ اس روز سے ابومسلم کا نام عبدالرحمن ہو گیا‘ امام ابراہیم ہی نے اس کی کنیت ابومسلم رکھی اور قحطبہ بن شبیب سے مانگ لیا۔ چند روز تک ابومسلم امام ابراہیم کی خدمت میں رہا اور انہوں نے اچھی طرح ابومسلم کی