تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
قیصر ارمانوس کے ہمراہ فرانس اور روس کے بادشاہ بھی تھے۔ سلطان الپ ارسلان نے صرف پندرہ ہزار فوج سے اس دولاکھ کے لشکر عظیم کو شکست دی۔ روس کے بادشاہ کو گرفتار کر کے اس کے کان اور ناک کاٹ لیے۔ ارمانوس کو گرفتار کر کے اور اطاعت و فرماں برداری کا اقرار لے کر چھوڑ دیا۔ رومیوں کو ایسی عظًم الشان شکست دینے کے بعد سلطان الپ ارسلان نے سنہ ۴۶۵ھ میں ماوراء النہر کا قصد کیا۔ دریائے جیحون کا پل باندھا گیا۔ بیس دن میں سلطانی لشکر نے اس پل کے ذریعہ سے دریا کو عبور کیا۔ ایک قلعہ دار یوسف خوارزمی مجرمانہ حیثیت سے سلطان کے دربار میں پیش کیا گیا۔ سلطان نے کہا کہ اسے چھوڑ دو‘ میں اس کو تیر کا نشانہ بنائوں گا۔ اتفاقاً تیر خطا ہو گیا۔ یوسف نے دوڑ کر سلطان کو خنجر مارا۔ سلطان زخمی ہوا‘ حاضرین دربار نے یوسف کو مار ڈالا مگر سلطان اس زخم کے صدمہ سے ۱۰ ربیع الاول سنہ ۴۶۵ھ کو فوت ہو گیا۔ اس کی لاش مرو میں لا کر دفن کی گئی۔ اس کا بیٹا ملک شاہ باپ کی جگہ تخت نشین ہوا۔ خلیفہ قائم بامر اللہ نے ملک شاہ کے پاس عہدنامہ اور لوائے سلطنت بھیج دیا۔ ۱۵ شعبان سنہ ۴۶۷ھ کو خلیفہ قائم بامراللہ نے فصد کھلوائی‘ اس کے بعد سو گیا۔ اتفاقاً رگ نشتر زدہ سے پھر خون جاری ہو گیا اور اس قدر خون جسم سے خارج ہو گیا کہ امید زیست منقطع ہو گئی۔ اسی وقت اراکین سلطنت بلوائے گئے اور خلیفہ قائم بامراللہ کے پوتے ابوالقاسم عبداللہ بن ذخیرۃ الدین محمد بن قائم بامراللہ کی ولی عہدی کی بیعت لی گئی۔ دوسرے دن خلیفہ کا انتقال ہوا۔ قائم بامراللہ کا صرف ایک ہی بیٹا تھا جس کا نام ذخیرۃ الدین محمد تھا۔ وہ باپ کے سامنے ہی فوت ہو گیا تھا۔ اس کی وفات کے چھ ماہ بعد اس کا بیٹا ابوالقاسم عبداللہ پیدا ہوا تھا۔ ابوالقاسم نے تخت خلافت پر جلوس کیا اور ’’مقتدی بامراللہ‘‘ کا لقب اختیار کیا۔ خلیفہ قائم بامراللہ نے ۴۵ سال خلافت کی۔ مقتدی بامر اللہ ابو القاسم عبداللہ مقتدی بامر اللہ بن محمد بن قائم بامر اللہ ایک ام ولدا رغوان نامی کے پیٹ سے پیدا ہوا تھا‘ انیس سال تین ماہ کی عمر میں تخت خلافت پر بیٹھا‘ تخت خلافت پر بیٹھتے ہی لہو و لعب اور گانے بجانے کی ممانعت کے احکام جاری کیے‘ اس کے زمانے میں خلافت کے رعب و اقتدار نے ترقی کی‘ یہ خلیفہ نہایت متقی‘ دین دار اور عالی ہمت تھا‘ شعبان ۴۶۷ھ میں تخت نشین ہوا۔ سلطان مالک شاہ کے ایک سردار اتسز بن آبق خوارزمی نے ذی قعدہ ۴۶۸ھ میں دمشق کو فتح کر کے خلیفہ مقتدی اور سلطان ملک شاہ کے نام کا خطبہ پڑھوایا‘ اذانوں سے ’’حی علیٰ خیر العمل‘‘ کو خارج کیا اور رفتہ رفتہ تمام ملک شام پر قبضہ کر لیا۔ ۴۶۹ھ میں بغداد کے اندر اشاعرہ اور حنابلہ کے درمیان سخت فساد برپا ہوا‘ بہت سے آدمی طرفین سے مجروح و مقتول ہوئے‘ پھر یہ فساد فرو ہو گیا۔ ۴۷۰ھ میں ملک شاہ نے اپنے بھائی تاج الدولہ تتش کو شام کا ملک جاگیر میں دیا اور یہ بھی اجازت دی کہ جس قدر ملک حاکم مصر کے قبضے سے نکال کر اپنے قبضہ میں لائو‘ وہ بھی اپنی جاگیر میں شامل سمجھو۔ ۴۷۰ھ میں تاج الدولہ نے حلب کا محاصرہ کیا‘ مصری فوج نے آ کر دمشق کا محاصرہ کر لیا‘ اتسز نے محصور ہو کر تتش سے امداد طلب کی‘ وہ حلب سے محاصرہ اٹھا کر دمشق آیا‘ مصری یہ خبر سن کر بھاگ گئے‘ تاج الدولہ تتش نے اتسز کو اس کی غفلت کے الزام میں قتل کرا دیا۔