تاریخ اسلام جلد 2 - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
دوسری فصل ہم اب تک جو کچھ پڑھ چکے ہیں اس کا خلاصہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے حالات زندگی مطالعہ کرنے کے بعد ہم نے خلافت راشدہ کے تفصیلی حالات مطالعہ کیے‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد کوئی ان کے خاندان کا شخص جو قریبی رشتہ دار ہونے کے سبب ان کی جائیداد کا وارث قرار دیا جاتا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی قائم کی ہوئی سلطنت کا حکمراں یا خلیفہ نہیں ہوا‘ اور یہ فیصلہ تعلیم اسلام کے عین موافق ہوا تھا۔ خلفائے راشدین میں ہر ایک خلیفہ کی اولاد موجود تھی‘ اور خلفاء کے ان بیٹوں میں ہر قسم کی قابلیت و اہلیت بھی موجود تھی‘ مگر کسی خلیفہ نے اپنی اولاد کو اپنا جانشین بنانا نہیں چاہا اور نہ ان کے خاندان میں حکومت و سلطنت متوارث ہوئی‘ صرف سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے بعد ان کے بیٹے سیدنا حسن رضی اللہ عنہ کو کوفہ والوں نے خلیفہ بنایا‘ مگر سیدنا حسن رضی اللہ عنہ نے چھ ہی مہینے کے بعد اس خلافت و حکومت کو سیدنا امیر معاویہؓ کے سپرد کر دیا۔ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے یہ کیا کہ انہوں نے خود اپنے بیٹے کو اپنا ولی عہد اور جانشین بنایا۱؎ اور ۱؎ فاضل مؤلف کے اس انداز تحریر سے اتفاق نہیں کیا جا سکتا۔ کیونکہ صحابہ رضی اللہ عنھم کی غلطیاں تحریر کرنا ہمارا کام نہیں۔ ہمیں تو حدیث میں اس بات سے منع فرما دیا گیا ہے۔ (ترمذی بحوالہ مشکوٰۃ المصابیح المحقق الالبانی رحمہ اللہ تعالی ‘ حکومت اسلامیہ کو جو تمام مسلمانوں کی کثرت رائے سے کسی شخص کی سپرد ہو سکتی تھی اپنی ذاتی چیز کی مانند اپنے اختیارات سے اپنی اولاد کے سپرد فرما دیا‘ تاہم انہوں نے اس بات سے علانیہ انکار نہیں کیا کہ حکومت اسلامیہ کسی فرد واحد یا کسی ایک خاندان کی ملکیت نہیں ہے‘ اسی لیے انہوں نے یزید کی بیعت کے لیے تمام مسلمانوں کو رضا مند کرنے کی کوشش فرمائی۔ سیدنا امیر معاویہؓ کا یہ عمل بھی کچھ زیادہ اہم اور نقصان رساں نہیں ہو سکتا تھا‘ کیوں کہ اس زمانے کے مسلمانوں نے اس کی اصلاح کے لیے زبردست کوشش شروع کی‘ اسی کوشش کے سلسلے میں حادثہ کربلا۱؎ پیش آیا‘ اور اسی کوشش کی کامیابی سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی خلافت تھی‘ اور سیدنا امیر معاویہؓ کا کا خاندان حکومت اسلامیہ سے محروم کر دیا گیا تھا‘ مگر سیدنا امیر معاویہؓ کے مذکورہ عمل کے ساتھ‘ دوسری عبداللہ بن سبا یہودی کی سازش بھی ایک مخالف اسلام کوشش تھی‘ یعنی حکومت اسلامیہ کے نظام اساسی کو درہم برہم کرنے کے لیے دو طاقتیں اثر انداز ہوئیں‘ ایک اندرونی لغزش جس کو سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب کیا گیا ہے اور دوسری بیرونی مخالفت جس کو سبائی سازش کہا گیا ہے‘ یہ دونوں چیزیں مل کر اور اسلامی جامہ پہن کر ایک فتنہ عظیم بن گئیں اور نتیجہ یہ ہوا کہ ایک طرف حکومت اسلامیہ کا ستون مرکز ثقل سے کسی قدر ہٹ گیا‘ دوسری طرف اس کو آماج گاہ حوادث بھی بننا پڑا۔ ولی عہدی اور وراثت کی رسم بد کو مروانی خلفاء نے پائدار بنا دیا اور نا قابل و نا اہل لوگوں کو تخت خلافت پر متمکن ہونے کا موقعہ ملنے لگا‘ جس سے سلطنت اسلامیہ کے